روزے رکھتی ہے ، پنیر کے ٹکڑوں ساتھ صدقہ کرتی ہے ، اس کے علاوہ کوئی اور عبادت نہیں کرتی۔لیکن وہ کسی پڑوسی وغیرہ کو ایذاء نہیں پہنچاتی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ جنت والوں میں سے ہے۔‘‘[1] اور صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لَا یَمْنَعَنَّ أَحَدُکُمْ جَارَہُ أَن یَّغْرِزَ خَشَبَۃً عَلٰی جِدَارِہِ) ’’ تم میں سے کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اِس سے منع نہ کرے کہ وہ اس کی دیوار میں لکڑی گاڑے۔‘‘[2] خلاصہ یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو ضرر پہنچانے سے پچنا انتہائی ضروری ہے۔ عام مسلمانوں کو ضرر پہنچانا بعض لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کو ضرر پہنچاتے ہیں۔اور اس کی متعدد صورتیں ہیں۔مثلا 1۔ مسلمانوں کی عام گزرگاہوں اور ان کے عام راستوں پر گندی اور تکلیف دہ چیزیں پھینک دیتے ہیں جس سے گزرنے والے ہر انسان کو ضرر پہنچتا ہے۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوسَ فِی الطُّرُقَاتِ)’’ تم راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:یا رسول اللہ ! ہمارے لئے مجلسیں ضروری ہیں جن میں بیٹھ کر ہم ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إِذَا أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہُ) ’’ اگر تم ضرور بیٹھنا چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو۔‘‘ انھوں نے کہا:یا رسول اللہ ! راستے کا حق کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (غَضُّ الْبَصَرِ ، وَکَفُّ الْأذَی ، وَرَدُّ السَّلَامِ ، وَالْأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ) ’’ نظروں کو جھکانا ، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا ، سلام کا جواب دینا ، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔‘‘[3] لہٰذا راستے کے اِن حقوق کا خیال رکھنا چاہئے۔ 2۔ بعض لوگ عمومی گزرگاہوں اور راستوں پر قضائے حاجت کرتے ہیں جس سے گزرنے والوں کو یقینا ضرر پہنچتا ہے۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اِتَّقُوا اللَّعَّانَیْنِ)’’ تم لعنت کا سبب بننے والے دو امور سے بچتے رہنا۔‘‘ |