﴿مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْدَیْنٍ غَیْرَ مُضَآرٍّ ﴾ ’’ یہ تقسیم وصیت کی تعمیل اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔اس میں کسی کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘[1] پڑوسیوں کو ضرر پہنچانا بعض لوگ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے اور انھیں کسی نہ کسی طرح سے نقصان اور اذیت پہنچاتے رہتے ہیں۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ…) ’’ جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ خیر ہی کی بات کرے ، ورنہ خاموش رہے۔اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تووہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے…‘‘[2] اِس حدیث کو بخاری ومسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مختلف طرق کے ساتھ روایت کیا ہے۔اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں:(فَلَا یُؤْذِ جَارَہُ)’’ تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔‘‘[3] پڑوسی کو اذیت پہنچاناحرام ہے کیونکہ کسی عام آدمی کو نا جائز طور پرتکلیف پہنچانا توحرام ہے ہی لیکن پڑوسی کے حق میں اس کی حرمت اور زیادہ سخت ہے۔ اور صحیح بخاری میں ابو شریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ) ’’ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘ پوچھا گیا:یا رسول اللہ ! کون ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اَلَّذِیْ لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ) ’’ جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘[4] اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ فلاں عورت رات کو قیام کرتی اور دن کو روزہ رکھتی ہے۔اِس کے علاوہ اور کئی نیک کام اور صدقہ وغیرہ بھی کرتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کے ساتھ اپنے پڑوسیوں کو ایذاء بھی پہنچاتی ہے۔تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔وہ جہنم والوں میں سے ہے۔‘‘پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ فلاں عورت صرف فرض نمازیں پڑھتی ہے ، رمضان کے |