3۔ ایک شخص اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتا ہے۔ایسے شخص کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک اُس سے دور رہ سکتا ہے۔لیکن اگر وہ اس سے زیادہ عرصے تک اس کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے یا وہ قسم تو چار ماہ کی ہی کھائے لیکن چاہ ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس کے پاس نہ جائے تو یقینا اس سے اس کی بیوی کو ضرر پہنچتا ہے۔ 4۔ ایک آدمی اپنے گھر سے دور کسی دوسر ے شہر یا کسی دوسرے ملک میں کام کرتا ہو۔اور استطاعت کے باوجود لمبے عرصے تک اپنی بیوی کے پاس نہ جاتا ہو تو اِس میں بھی بیوی کو یقینا ضرر پہنچتا ہے۔ 5۔ بیوی کا نان ونفقہ خاوند کے ذمہ ہے۔اگر خاوند اس کا جائز نان ونفقہ اسے نہ دے تو اس میں یقینا اس کیلئے ضرر ہے۔ بیوی کو نقصان پہنچانے کی اِن تمام صورتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔کیونکہ نقصان پہنچانا حرام ہے۔ اسی طرح بعض بیویاں بھی اپنے خاوندوں کو ضرر پہنچاتی ہیں۔مثلا ان کی خدمت نہیں کرتیں ، یا ان سے بدکلامی کرتی ہیں اور ان کا ادب واحترام نہیں کرتیں ، یا انھیں استمتاع کا موقع نہیں دیتیں ، یا نا جائز خرچوں کا مطالبہ کرکے انھیں پریشان کرتی ہیں ، یا ان کا مال ان کی اجازت کے بغیر برباد کردیتی ہیں… یہ اور اِس طرح کی دیگر تمام صورتیں جن میں خاوند کو ضرر پہنچایا جاتا ہے ، ممنوع ہیں۔لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے۔ وصیت میں ضرر پہنچانا بعض لوگ مرنے سے پہلے وصیت میں ظلم کرجاتے ہیں۔ مثلا کسی وارث کے حق میں وصیت کرجاتے ہیں۔ جس سے دیگر ورثاء کو ضرر پہنچتا ہے۔ جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ(إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ) ’’ بے شک اللہ تعالی نے ہر حق والے کا حق مقرر کردیا ہے۔لہٰذا وارث کیلئے وصیت نہیں ہے۔‘‘[1] یا وصیت ایک تہائی سے زیادہ کی کر جاتے ہیں۔اس سے بھی ورثاء کو ضرر پہنچتا ہے۔ جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ ایک تہائی حصے کی وصیت کرنے کی اجازت دی تھی بلکہ اسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ کثیر ‘ قرار دیا۔[2] وصیت میں بعض ورثاء پر ظلم کرنا اور انھیں ضرر پہنچانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اِس طرح کی ظالمانہ وصیت کی وجہ سے وصیت کرنے والا زندگی بھر کے اعمال برباد کر بیٹھتا ہے۔ اور اللہ رب العزت نے وصیت میں ضرر پہنچانے سے منع کیا ہے۔اس کافرمان ہے: |