Maktaba Wahhabi

452 - 492
رہیں۔یعنی وہ نہ اپنی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچائے اور نہ اپنے ہاتھوں سے کسی کو نقصان پہنچائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ) ’’ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔‘‘[1] بلکہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ مسلمانوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ) ’’ جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ [2] 4۔ چوتھی بات یہ ہے کہ نقصان پہنچانا حرام ہے ، چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ ’’ بلا شبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔‘‘[3] ’ میزان ‘ سے مراد ماپ تول کے پیمانے ہیں ، جنھیں اللہ تعالی نے اس لئے نازل کیا کہ لین دین کے معاملات میں لوگوں کے باہمی حقوق کا تحفظ ہو اور کوئی کسی پر نہ زیادتی کرسکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔ اسی طرح ’ میزان ‘ سے مراد اللہ رب العزت کا وہ نظامِ عدل وانصاف بھی ہے جو تمام لوگوں کے تمام حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور معاشرے میں ظلم وزیادتی اور نقصان سے بچنے کی ضمانت دیتا ہے۔اور یہ نظام ایسا عادلانہ نظام ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے بلکہ انھیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ وہ معاشرے میں مقیم کافروں کو بھی ظلم وزیادتی سے بچائیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ ’’ اور اگر کسی قوم نے تمھیں مسجد حرام سے روک دیا ہو تو اس کی دشمنی تمھیں ناروا زیادتی پر مشتعل نہ کرے۔‘‘[4] اسی طرح اس کا فرمان ہے:﴿ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ ’’ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر مشتعل نہ کرے کہ تم عدل کو چھوڑ دو۔عدل کیا کرو ، یہی بات تقوی کے قریب تر ہے۔‘‘[5]
Flag Counter