عزیز القدر بھائیو ! صف میں خالی جگہ کو پُر کرنے کی اتنی زیادہ فضیلت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:(مَنْ سَدَّ فُرْجَۃً رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً ، وَبَنَی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ) ’’ جو شخص خالی جگہ کو پُر کرے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔‘‘[1] لہٰذا ہمیں یہ فضیلت حاصل کرنے کیلئے صفوں میں موجود خلاء کو پُر کرنا چاہئے۔تاہم یہ بات یاد رہے کہ اپنے پیروں کو اپنے جسم کی ضخامت کے مطابق ہی کھولنا چاہئے۔اس سے زیادہ نہیں۔کیونکہ اگر اپنے جسم کی ضخامت سے زیادہ اپنے پیروں کو دائیں بائیں پھیلائیں گے تو اس کے نتیجے میں کندھوں کے ساتھ کندھے نہیں ملیں گے۔لہٰذا حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے۔ 4۔ نماز کے اعمال میں امام سے سبقت لے جانا بعض لوگ نماز میں جلد بازی کرتے ہیں اور امام سے سبقت لے جاتے ہیں۔مثلا امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں چلے جاتے ہیں ، یا اس سے پہلے رکوع سے سر اٹھا لیتے ہیں ، یا اس سے پہلے سجدے سے سر اٹھا لیتے ہیں… اور یہ بالکل غلط ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف منہ کرکے ارشاد فرمایا: (یٰٓا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنِّی إِمَامُکُمْ فَلَا تَسْبِقُوْنِی بِالرُّکُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ وَلَا بِالْقِیَامِ وَلَا بِالْإِنْصِرَافِ…) ’’ اے لوگو ! میں تمھارا امام ہوں ، لہٰذا تم مجھ سے سبقت نہ لے جاؤ رکوع میں اور نہ سجدے میں۔اور نہ قیام میں اور نہ سلام پھیرنے میں۔‘‘[2] اور امام سے سبقت لے جانا اتنا سنگین جرم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أَمَا یَخْشَی الَّذِیْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَن یُّحَوِّلَ اللّٰہُ رَأْسَہُ رَأْسَ حِمَارٍ) ’’ وہ شخص جو امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے توکیا وہ اِس سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالی اُس کے سر کو گدھے کے سر میں تبدیل کردے ؟ ‘‘[3] |