اور جہاں تک مل کر کھڑے ہونے کا تعلق ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: (أَقِیْمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوْا بَیْنَ الْمَنَاکِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ ، وَلِیْنُوْا بِأَیْدِیْ إِخْوَانِکُمْ ، وَلَا تَذَرُوْا فُرُجَاتٍ لِلشَّیْطَانِ ، وَمَنْ وَّصَلَ صَفًّا وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَہُ اللّٰہُ) ’’ تم صفیں سیدھی کرو۔اور کندھوں کو برابر کرو۔اور خالی جگہ کو پُر کرو۔اور اپنے بھائیوں کو صف میں ملنے کا موقع فراہم کرو۔اور شیطان کیلئے خالی جگہیں نہ چھوڑو۔اور جو شخص صف کو ملائے گا اسے اللہ تعالی(اپنی رحمت سے)ملائے گا۔اور جو صف کو کاٹے گا اسے اللہ تعالی(اپنی رحمت سے)کاٹ دے گا۔‘‘[1] اسی طرح جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(أَلَا تَصُفُّوْنَ کَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا ؟) ’’ کیا تم اُس طرح صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں ؟ ‘‘ تو ہم نے کہا:یا رسول اللہ ! فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یُتِمُّوْنَ الصُّفُوفَ الْأوَّلَ فَالْأوَّلَ ، وَیَتَرَاصُّوْنَ فِی الصُّفُوفِ) ’’ وہ صفیں مکمل کرتے ہیں ، پہلے آگے والی صف اور پھر اس کے بعد والی۔اور وہ صفوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘[2] اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اِس کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس طرح صفوں میں مل کر کھڑے ہوتے تھے۔وہ فرماتے ہیں:(کَانَ أَحَدُنَا یُلْزِقُ مَنْکِبَہُ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہِ وَقَدَمَہُ بِقَدَمِہِ) ’’ ہم میں سے ہر ایک اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے قدموں کو اس کے قدموں سے ملاتا تھا۔ ‘‘[3] اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یُلْزِقُ مَنْکِبَہُ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہِ وَرُکْبَتَہُ بِرُکْبَۃِ صَاحِبِہِ وَکَعْبَہُ بِکَعْبِہِ) ’’ چنانچہ میں نے دیکھا کہ ہر آدمی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملائے ہوئے ہے۔‘‘[4] |