پھیرنے لگتے ہیں ، کبھی انگلیاں چٹخاتے ہیں تو کبھی ناخن صاف کرنا شروع کردیتے ہیں ، کبھی اپنے کپڑے سنوارتے ہیں تو کبھی گھڑی کو دیکھنے لگتے ہیں… اِس طرح کی کئی اور بے ہودہ حرکات بھی کثرت سے کرتے ہیں۔ تو یہ سب حرکتیں نماز میں خشوع وخضوع کے بالکل برخلاف ہیں۔جو شخص اِس طرح کی حرکتیں کر رہا ہو اس کے بارے میں یقین کر لینا چاہئے کہ اس کے دل میں خشوع نہیں ہے۔کیونکہ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو وہ ہرگز ایسی حرکتیں اللہ رب العزت کے سامنے کھڑا ہو کر نہ کرتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ ٭الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ﴾ ’’ وہ مومن یقینا کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں(قلب وجوارح کی)یکسوئی اور انہماک اختیار کرتے ہیں۔‘‘[1] اور ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَا لِی أَرَاکُمْ رَافِعِی أَیْدِیْکُمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ ، أُسْکُنُوا فِی الصَّلَاۃِ) ’’ مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمھیں یوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھتا ہوں کہ جیسے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوں ! تم نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘[2] اِس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں بائیں سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھانے والوں کو سرکش گھوڑوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کہ آرام وسکون سے ٹھہرتا نہیں ، بلکہ اپنی ٹانگوں اور دُم کو بہت زیادہ حرکت دیتا رہتا ہے۔’سکون ‘ کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کی دُم کی طرف بار بار حرکت نہ کیا کرو۔بلکہ نہایت عاجزی وانکساری کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔ 5۔ امام کے پیچھے تکبیراتِ انتقال نہ کہنا بعض لوگ امام کے پیچھے بالکل ہی خاموش رہتے ہیں۔حتی کہ اس کے ساتھ تکبیراتِ انتقال بھی نہیں کہتے۔اور یہ غلط ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوْا ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوْا ، وَإِنْ صَلّٰی قَائِمًا فَصَلُّوْا قِیَامًا) ’’ بے شک امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔اور اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔‘‘[3] |