’’ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز رکھ لے تو وہ نماز پڑھ لے اور اس کے پیچھے سے جو بھی گزرے اس کی پروا نہ کرے۔‘‘[1] ’ پالان کی پچھلی لکڑی ‘ تقریبا ایک ہاتھ کے برابر ہوتی ہے۔ سترہ کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ امام کا سترہ تمام نمازیوں کا سترہ ہوتا ہے۔لہذا اگر کوئی شخص دوران ِ جماعت صفوں کے درمیان سے گزرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا اور اس وقت میں جوان ہونے کو تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منٰی میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ، چنانچہ میں صف کے سامنے سے گزرا ، پھر میں نیچے اترا اور گدھی کو چرنے کیلئے چھوڑ دیا۔پھر میں صف میں شامل ہو گیا۔تو کسی نے مجھے کچھ بھی نہ کہا۔[2] 3۔ نماز میں نمازیوں کی اخطاء اب ہم ان خطاء کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا تعلق نماز کی کیفیت کے ساتھ ہے۔ 1۔ نیت زبان کے ساتھ کرنا بعض لوگ نماز کی نیت زبان کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کے وہ الفاظ جو بعض لوگوں کی طرف سے ایجاد کئے گئے ہیں انھیں وہ اپنی زبان کے ساتھ دہراتے اور پھر نماز شروع کرتے ہیں۔اور یہ بالکل غلط ہے۔کیونکہ ’نیت ‘ دل کے ارادے کا نام ہے۔لہذا جو بھی نماز پڑھنی ہو اس کا تعین کرتے ہوئے دل میں اس کا ارادہ کر لیا جائے تو یہی کافی ہے۔اگر نیت زبان کے ساتھ کرنی لازم ہوتی تو اُس کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلاتے اور وہ اپنی نمازوں کو انہی الفاظ کے ساتھ شروع کرتے۔لیکن کسی بھی حدیث میں ، حتی کہ ضعیف حدیث میں بھی ایسے الفاظ ذکر نہیں کئے گئے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان الفاظ کا دین میں کوئی وجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اہل علم نے زبان کے ساتھ نیت کرنا بدعت قرار دیا ہے۔چاہے وہ شافعی ہوں یا مالکی ، حنبلی ہوں یا حنفی ، حتی کہ امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (لَمْ یَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْأئِمَّۃِ الْأرْبَعَۃِ ، لَا الشَّافِعِیُّ وَلَا غَیْرُہُ بِاشْتِرَاطِ التَّلَفُّظِ بِالنِّیَّۃِ ، وَإِنَّمَا النِّیَّۃُ مَحَلُّہَا الْقَلْبُ بِاتِّفَاقِہِمْ) ’’ چاروں اماموں میں سے کسی نے بھی ، نہ شافعی نے اور نہ کسی اور نے زبان کے ساتھ نیت کرنا شرط نہیں کہا۔بلکہ ان سب کا اتفاق ہے کہ نیت کی جگہ دل ہے۔‘‘[3] |