عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’پھر تمھارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔کیونکہ پتھروں میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے۔اور کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے(لرز کر)گر پڑتے ہیں۔اور جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ اس سے بے خبر نہیں۔‘‘[1] یعنی بنو اسرائیل نے اتنے زیادہ معجزات دیکھے ، لیکن پھر بھی ان کے دل حق کی طرف مائل نہ ہوئے ، بلکہ ہٹ دھرمی اور ضد میں اور اضافہ ہوگیا ! اِس کا سبب ان کے دلوں کا سخت ہونا تھا۔اسی طرح آج کے مسلمان بھی اللہ تعالی کے بے شمار احسانات کے باوجود اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔اِس کا سبب یقینا ان کے دلوں کا سخت ہونا ہے۔تو آئیے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہماری اِس سنگدلی کے اسباب کیا ہیں ؟اور کیوں ہم اِس قدر پتھر دل بن گئے ہیں ؟ سنگدلی کے اسباب اِس سنگدلی کے اہم اسباب یہ ہیں: ۱۔ اللہ کے ذکر سے اعراض ذکر اللہ سے اعراض اور اس سے غفلت کے نتیجے میں دل سخت ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لَا تُکْثِرُوا الْکَلَامَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ ، فَإِنَّ کَثْرَۃَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ قَسْوَۃٌ لِّلْقَلْبِ) ’’ تم اللہ کے ذکر کے علاوہ دوسرا کلام کثرت سے نہ کیا کرو۔کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ دوسرا کلام بکثرت کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے۔‘‘[2] اورحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لاَ یَذْکُرُہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) ’’ اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک زندہ شخص ہو۔اور اُس شخص کی مثال جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک مردہ شخص ہو۔‘‘[3] یعنی جو شخص اللہ تعالی کو یاد رکھے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور اس میں حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت باقی رہتی |