Maktaba Wahhabi

402 - 492
کا حق حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمررضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا تھا۔پھر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ طلاق کے مسئلے میں انتہائی غیر ذمہ دار ی کا مظا ہرہ کر رہے ہیں تو انہوں نے سزا کے طور پر تین طلاقیں نافذ کر دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَأَبِی بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً۔فَقَالَ عُمَرُ:إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِی أَمْرٍ کَانَتْ لَہُمْ فِیْہِ أَنَاۃٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ ، فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ) ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں(اکٹھی)تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کیلئے مہلت موجود تھی۔لہذا کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ! پھر انھوں نے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کردیا۔‘‘[1] اس حدیث سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شمار کرنے کا حکم کیوں جاری کیا۔ حالانکہ عہد ِرسالت ،عہد صدیقی اور خود ان کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایسا نہیں تھا۔یعنی جب تک لوگ طلاق دینے کے شرعی طریقے کے پابند تھے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی عہد رسالت اور عہد صدیقی میں رائج قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے رہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی پشت پر درے بھی رسید کرتے تھے۔[2] کیونکہ یہ فعل شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ تھا۔لیکن جب لوگ کثرت سے ایسا کرنے لگے تو انہوں نے سزا کے طور پرتین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں اور طلاق کے معاملے میں غورو فکر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اس اقدام کی وجوہات چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم تھیں اس لئے انہوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی۔ سامعین ! آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر غور فرمائیں(فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ)’’کیوں نہ ہم اسے ان
Flag Counter