Maktaba Wahhabi

401 - 492
کی کوئی صورت نہیں نکلتی اور خاوند رجوع نہیں کرتا تو عدت گذرنے کے ساتھ ہی ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے گی۔اِس طرح طلاق دینے سے فائدہ یہ ہو گا کہ عدت گذرنے کے بعد بھی اگر وہ دونوں پھر سے ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں۔ہاں اِس کیلئے انھیں نئے حق مہر کے ساتھ نیا نکاح کرانا ہو گا۔ اور اگر کوئی شخص یہ عزم کر چکا ہو کہ بیوی کو تین طلاقیں دے کر اسے بالکل ہی فارغ کرنا ہے اوروہ رجوع نہیں کرنا چاہتا تو دوسرے طہر میں بھی بیوی سے صحبت کئے بغیردوسری طلاق دے۔اسکے بعد بھی اسے رجوع کا حق حاصل رہے گا۔تاہم اگر وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا تو تیسرے طہر میں بھی بیوی کے قریب جائے بغیر تیسری طلاق دے دے۔جس کے بعد اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہو جائے گی۔ یہی طریقہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے۔فرمایا:﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ﴾ ’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘[1] یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے۔ لہذا پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد خاوند رجوع کرسکتا ہے۔یعنی عدت کے اندر وہ قولی یا عملی طور پر رجوع کر نے کا حق رکھتا ہے۔اور عدت گذرنے کے بعد بھی وہ نیا نکاح کرکے اسے اپنے عقد میں لا سکتا ہے۔تاہم اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جن تین طلاقوں کا اسے اختیار دیا گیا تھا وہ ان میں سے دو کا استعمال کر چکا۔اور یہ دونوں طلاقیں واقع ہو چکیں۔اب اس کے بعد اس کے پاس آخری طلاق کا اختیار رہ جائے گا۔ پھر تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد اسے رجوع کا حق حاصل نہیں رہے گا۔ یہ جو رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خاوند نے بغیر سوچے سمجھے جلدبازی میں طلاق دے دی ہو تو اسے سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موقع مل جائے۔ ورنہ اگر پہلی طلاق کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم ہوتا تو اس سے بہت سارے گھر تباہ ہوسکتے تھے۔فرمان الٰہی ﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن﴾ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ 7۔بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنا یہ جو ہم نے﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن﴾کی روشنی میں دو طلاقیں الگ الگ دینے کی حکمت بیان کی ہے یہ حکمت تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے اور اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے
Flag Counter