پرنافذ کر دیں ‘‘ ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی نسبت اپنی طرف کی۔ لہذا یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جو مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے ایک مخصوص طرزِ عمل کو روکنے کے لئے کیا گیا۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اِس فیصلے سے رجوع کرلیا تھا۔[1] کیا تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنااجماعی مسئلہ ہے ؟ بعض حضرات بڑے شد ومد سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کیا تب سے اس حکم پر اجماع چلا آرہا ہے۔ اور اس سے سوائے اہلحدیثوں کے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا!! حالانکہ یہ ایک بہت بڑی علمی خیانت ہے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کے سواکچھ بھی نہیں کیونکہ: ۱۔ عہد صدیقی او رحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں بھی تو اس بات پر اجماع تھا کہ اکٹھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیاجائے۔ تواس اجماع کی حیثیت کیا ہوگی ؟کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جاری کردہ ایک تعزیری حکم سے وہ اجماع باطل قرار پائے گا او رنا قابل عمل ہوگا ؟ ۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم ایک خلیفۂ راشد نے جاری کیا(اگرچہ یہ حکم ایک تعزیری حکم تھا)لیکن انہیں ایک طلاق شمار کرنے کا قانون بھی تو ان سے افضل ایک خلیفۂ راشد ہی کے دورِ خلافت کا قانون تھا۔پھر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قانون کو دوسال تک درست قرار دیا۔اسی طرح خلفائے راشدین میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذہب بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شما رکرنا تھا۔ توبتائیے دعوائے اجماع کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ ۳۔حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل تھے۔لہذا اجماع کا دعوی کرنا کیسے درست ما نا جائے گا ! ۴۔تابعین رحمہ اللہ و تبع تابعین رحمہم اللہ میں سے عطاء رحمہ اللہ ،طاوس رحمہ اللہ اور عمر و رحمہ اللہ بن دینار وغیرہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے تھے۔[2] ۵۔علمائے امت مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،حافظ ابن القیم ،حافظ ابن حجر ،امام قرطبی ،امام فخرالدین الرازی،امام شوکانی وغیرہ نے اس مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیاہے۔ توکیونکر اسے اجماعی مسئلہ تصور کر لیا جائے ! |