Maktaba Wahhabi

398 - 492
احکامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ؟ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم کرتے ہیں۔ 1۔ طلاق ایک سنجیدہ معاملہ ہے جی ہاں ، طلاق دینا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ! اس کی وجہ سے دو خاندانوں میں بغض ، نفرت ، قطع رحمی اور دوری پیدا ہوتی ہے۔وہ گھرانہ اجڑ جاتا ہے جس میں طلاق دی جاتی ہے۔لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آکر(طلاق ، طلاق ، طلاق)کہہ کر دو خاندانوں میں فساد بپا کردیتے ہیں۔اور کئی لوگ تو اپنی بیویوں کو کھلونا سمجھ کر نہایت آسانی سے طلاق کا پروانہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں حالانکہ طلاق میں اصل چیزمنع ہے۔یعنی جب تک اس کا کوئی معقول سبب نہ ہو جس کا ازالہ کرنا نا ممکن ہو اور صلح کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو انتہائی مجبوری کی حالت میں طلاق دے سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ اور بعض لوگ مذاق مذاق میں ہی طلاق دے دیتے ہیں۔حالانکہ طلاق ایسا معاملہ ہے کہ جس میں مذاق کا حکم بھی سنجیدہ بات کے حکم جیسا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ:اَلنِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَۃُ) ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور ان میں مذاق بھی ایسے ہی ہے جیسے سنجیدگی ہو اور وہ ہیں:نکاح ، طلاق اور رجوع۔‘‘ [1] لہذا جو شخص طلاق دینا چاہتا ہو تو اسے اس کے عواقب اور نتائج پر اچھی طرح غور کرلینا چاہئے۔سوچ وفکر اور اصحاب الرائے سے مشورہ لینے کے بعد ہی وہ اِس طرح کے اقدام پر آمادہ ہو۔ورنہ بعد میں پچھتاوے اور ندامت کا سامنا بھی کر سکتا ہے۔ 2۔ حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کا ذکر کیا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا ، ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا أَوْ حَامِلًا) ’’ اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔پھر اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔‘‘[2] اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے۔لہذا جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہو اور وہ حیض کے ایام میں ہو تو اسے اس کے پاک ہونے کا انتظاکرنا چاہئے۔پھر جب وہ پاک ہو جائے تو اس سے مباشرت
Flag Counter