Maktaba Wahhabi

397 - 492
اس سے ثابت ہوا کہ سزا دیناآخری حربہ ہے نہ کہ پہلا جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ پہلے دونوں اقدامات کو چھوڑ کر آخری حربہ سب سے پہلے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سزا کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ اس سے اسے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جِلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ) ’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو ایسے نہ مارے جیسے وہ اپنے غلام کو مارتا ہے ، پھر وہ دن کے آخر میں اس سے ہم بستری بھی کرے۔‘‘[1] اگر سزا دینے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہو تو پھر دونوں کی طرف سے ثالث مقرر کئے جائیں جو ان کے ما بین مصالحت کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآاِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا﴾ ’’ اور اگر تمھیں ان دونوں(میاں بیوی)کے درمیان ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے گھروالوں کی طرف سے اور ایک عورت کے گھر والوں کی طرف سے مقرر کرو۔اگریہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالی دونوں میں ملاپ کرادے گا۔‘‘[2] لہذا ان مرحلہ وار اقدامات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ طلاق تک نوبت ہی نہ پہنچے۔ محترم حضرات ! یہ تھے طلاق کے اسباب جنھیں ہم نے تفصیل سے بیان کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بھی بتایا کہ ان اسباب کا حل کیا ہے۔مقصد یہ تھا کہ ایسے اسباب نہ اختیار کئے جائیں جن کے نتیجے میں زوجین کے مابین تعلقات نا خوشگوار ہوں اور نوبت طلاق تک جا پہنچے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ دوسرا خطبہ محترم حضرات ! اگر زوجین کے مابین تعلقات خوشگوار نہ رہ سکیں اور اصلاحِ احوال کی تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں اور مرد کے سامنے سوائے طلاق دینے کے اور کوئی حل نہ رہے تو اسے طلاق کس طرح دینی چاہئے اور کن کن
Flag Counter