Maktaba Wahhabi

396 - 492
حل:کسی خاتونِ اسلام کیلئے جائز نہیں کہ وہ زبان درازی کرتے ہوئے بد کلامی کرے۔خاص طور پر خاوند کا تواسے دل کی گہرائیوں سے احترام کرنا چاہئے۔اس پر لازم ہے کہ وہ ایسا رویہ اختیار کرنے سے پرہیز کرے جس میں اس کے خاوند کی بے عزتی ہو۔ اور جہاں تک بات بات پہ طلاق کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ خواتین کیلئے نہایت خطرناک ہے کیونکہ بغیر شرعی عذر کے طلاق کا مطالبہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (أَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجَہَا الطَّلاَقَ مِنْ غَیْرِ مَا بَأْسٍ ، فَحَرَامٌ عَلَیْہَا رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ) ’’ جو عورت بغیر کسی معقول عذر کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہو جاتی ہے۔ ‘‘[1] 10۔زوجین کے مابین نا چاقی کو ختم کرنے کیلئے مرحلہ وار اقدامات سے صرف نظر کرنا اگر زوجین میں ناچاقی ہو جائے تو اسے ختم کرنے کے لئے شریعت میں مرحلہ وار اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔عموما ان اقدامات سے تجاوز کیا جاتا ہے اور فورا طلاق کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ حل:طلاق آخری حل ہے۔اس سے پہلے جو مرحلہ وار اقدامات ہیں پہلے ان پر عمل کرنا چاہئے۔اگر وہ سب ناکام ہو جائیں تو آخری حل کے طور پر طلاق دی جا سکتی ہے۔ وہ مرحلہ وار اقدامات یہ ہیں: اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ﴾ ’’ اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ۔(اگر نہ سمجھیں)تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو۔(پھر بھی نہ سمجھیں)تو انھیں مارو۔پھر اگر وہ تمھاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔‘‘[2] اس آیت میں اللہ تعالی نے نافرمان یا سرکش بیوی کے متعلق تین ترتیب وار اقدامات تجویز کئے ہیں۔ ٭ پہلا ہے اسے نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں سمجھانا۔ ٭ دوسرا اقدام ہے اس کا اور اپنا بستر الگ الگ کرنا۔ ٭ تیسرا ہے سزا دینا۔
Flag Counter