Maktaba Wahhabi

394 - 492
7۔ خرچ کرنے میں بے اعتدالی بعض لوگ گھریلو اخراجات میں راہِ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ یا تو بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھراسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ان دونوں صورتوں میں ان کے اور ان کی بیویوں کے مابین تعلقات متوازن نہیں رہتے۔کیونکہ وہ اگر بخل اورکنجوسی کا مظاہرہ کریں اور اپنی بیویوں کی جائز ضروریات کیلئے پیسہ خرچ کرنے سے گریز کریں اور اس کی وجہ سے ان کو اپنی ہم جنس عورتوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے تو یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور آخر کار بیویاں تنگ آ کر اپنے خاوندوں سے کہہ ہی دیتی ہیں کہ اگر آپ خرچ نہیں کر سکتے تو ہمیں ہمارے والدین کے گھر بھیج دیں۔ اور اگر وہ بے انتہاء خرچ کریں اور دوسروں پر اپنی مالی برتری ثابت کرنے کیلئے جائز وناجائز کاموں میں بے دریغ پیسہ بہا دیں تو گھر سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔پھر بے برکتی کی وجہ سے پیسہ اڑتا ہی چلا جاتا ہے۔جس کے بعد(ہَلْ مِن مَّزِیْد)کی طمع اور لالچ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے اخراجات کو کیسے کنٹرول کرے۔اور نا شکری اور عدم قناعت کی وجہ سے گھریلو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور زوجین کے درمیان ناچاقی اور منافرت کی ابتداء ہوتی ہے اور بالآخر نوبت ان کے درمیان علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔ حل:اس کا حل یہ ہے کہ خاوند جو گھریلو اخراجات کا ذمہ دار اوراپنے بیوی بچوں کا کفیل ہوتا ہے اسے تمام تر اخراجات میں راہِ اعتدال کو اختیار کرنا چاہئے۔نہ وہ کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی اسراف اور فضول خرچی کرے۔بلکہ میانہ روی اور توسط سے کام لے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَامًا ﴾ ’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، بلکہ ان دونوں کے درمیان گذر اوقات کرتے ہیں۔‘‘[1] اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَن یُّضَیِّعَ مَن یَّقُوْتُ) ’’ کسی انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کی غذا وغیرہ کا وہ ذمہ دار ہو۔‘‘ [2]
Flag Counter