Maktaba Wahhabi

391 - 492
نہایت حقیر سمجھتے ہیں اور بس اپنی رائے کو ہی واجب العمل تصور کرتے ہیں ! اس کے علاوہ ان کا اپنی بیویوں سے انداز گفتگو نہایت توہین آمیز ہوتا ہے حتی کہ اولاد کے سامنے بھی ان کی بے عزتی کرنے سے باز نہیں آتے ! اِس اندازِ معاشرت سے آخر کار بیویاں تنگ آ جاتی ہیں کیونکہ گھر میں ان کی شخصیت مسلسل مجروح ہو رہی ہوتی ہے اور آخر کار وہ طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہیں۔اور ان کے اس مطالبے کے بعد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے طلاق نہ دی تو ان کی مردانگی پر حرف آئے گا۔اس لئے وہ سوچے سمجھے بغیر فورا طلاق دے دیتے ہیں۔ حل:مرد بے شک عورتوں پر حاکم ہیں اور خواتین بے شک کم عقل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھیں حقیر سمجھتے ہوئے ان سے بد سلوکی کی جائے اور گھریلو معاملات میں ان کی رائے کو نظر انداز کیا جائے۔اس کے بر عکس ان سے حسن سلوک اور اچھے انداز سے بود وباش رکھنا ضروری ہے۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘[1] اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا ، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ) ’’ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو۔اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو۔‘‘[2] مردوں کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے ان کی بیویوں کے ان پر کچھ حقوق مقرر کئے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾ ’’ اور عورتوں کے(شوہروں پر)عرفِ عام کے مطابق حقوق ہیں جس طرح شوہروں کے ان پر ہیں۔‘‘[3] اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شوہروں کو ان کی بیویوں کے متعلق خصوصی طور پر یہ تاکید کی ہے کہ وہ نہ ان پر ظلم کریں اور نہ ان کی حق تلفی کریں بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا:(فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ،فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ) ’’ تم عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی ذمہ داری پر لیا ہے۔ اور
Flag Counter