’’ اے ایمان والو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تم اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو۔پھر تمھیں اپنے کئے پر ندامت ہو۔‘‘[1] 3۔ غیرت میں افراط وتفریط مومن بڑا غیور ہوتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(اَلْمُؤْمِنُ یَغَارُ وَاللّٰہُ أَشَدُّ غَیْرًا) ’’ مومن غیرت مند ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس سے زیادہ غیرت والا ہے۔ ‘‘ [2] تاہم غیرت میں اعتدال ضروری ہے۔کیونکہ اگر مرد میں غیرت بالکل نہ ہو تو اس سے اس کی بیوی(اگر وہ دیندار نہ ہو تو اس کو)آزادی مل جاتی ہے۔پھر وہ بے پردہ ہو کر باہر گھومتی پھرتی ہے ، غیر محرم مردوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے اور مختلف غیر شرعی امور میں منہمک رہتی ہے لیکن اس کے خاوند کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا ! اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، بے جا طور پر تجسس ہوتا ہے اور ہر ہر بات پر بدگمانیاں ہوتی ہیں۔اور یوں فرطِ غیرت میں مبتلا ہو کر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔ حل:اگر مرد میں بالکل ہی غیرت نہ ہو تو اسے اپنی بیوی کیلئے غیرت مند ہونا چاہئے۔وہ اس قدر غیور ہو کہ اس کا غیر مردوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، بے پردہ ہو کر اس کا گھومنا پھرنا اور اجنبی مردوں سے فون پر غیر ضروری بات چیت کرنا اسے نا پسند ہو۔اور اگر بیوی بعض برائیوں میں مبتلا ہو تو اسے اس پر بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے تنبیہ کرنی چاہئے۔ اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو اسے اعتدال کی حد تک لانا چاہئے کیونکہ فرطِ غیرت کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ 4۔ مردانگی کا بے جا اظہار اور بد سلوکی کا مظاہرہ بعض حضرات کو چونکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں کے بارے میں فرمایا ہے:﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾ ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔‘‘ اور انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو(ناقصات العقل)’’ کم عقل ‘‘ قرار دیا ہے ، تو وہ بے جا طور پر اپنی مردانگی اور عورت پراپنی حکمرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے بد سلوکی کرتے ہیں۔ان کا طرزِ عمل اس قسم کا ہوتا ہے کہ ﴿ مَآ اُرِیْکُمْ اِِلَّا مَآ اَرٰی ﴾ ’’بس رائے وہی ہے جو میں دے رہا ہوں۔‘‘ یعنی اپنی بیویوں سے رائے لینا گوارا ہی نہیں کرتے یا اگر ان کی رائے سامنے آ بھی جائے تو اسے |