﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوا﴾ ’’ اے ایمان والو ! تم زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہے۔اور جاسوسی نہ کیا کرو۔‘‘[1] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوْا وَلاَ تَجَسَّسُوْا…) ’’ تم بد گمانی کرنے سے بچو کیونکہ یہ سب سے جھوٹی بات ہے۔اور تم چوری چھپے کسی کی بات نہ سنا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے عیب تلاش کیا کرو…‘‘[2] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی(جس کا نام ضمضم بن قتادہ رضی اللہ عنہ ذکر کیا گیا ہے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا:اے اللہ کے رسول ! میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنم دیا ہے۔(یعنی اس نے یہ کہہ کر در اصل اپنی بیوی پر شک وشبہ اور بد گمانی کا اظہار کیا)تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س سے پوچھا:کیا تمھارے اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا:جی ہاں ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان کے رنگ کیاہیں ؟ اس نے کہا:سرخ رنگ کے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا:جی ہاں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خاکی رنگ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے کہا:شاید اس کے خاندان میں کوئی اسی رنگ کا ہو گا(جس کے ساتھ اس کی مشابہت ہے)۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شاید تمھارے اس بچے کے خاندان میں بھی کوئی اسی رنگ کا ہو گا(جس کے ساتھ اس کی مشابہت ہے۔)[3] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خاوند کو اپنی بیوی پر خواہ مخواہ شک وشبہ نہیں کرنا چاہئے کہ جو رفتہ رفتہ بد اعتمادی میں تبدیل ہو جائے اور اس کا نتیجہ طلاق نکلے۔ بعض لوگ صرف سنی سنائی باتوں پر ہی اعتماد کرلیتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں پراس قدر بدگمانی کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔اس سلسلے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے اور بلا تحقیق کسی کی بات کو درست تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ﴾ |