﴿ وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ ﴾ ’’ اور تمہیں جو مصیبت آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے۔ اور وہ بہت سے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیتا ہے۔‘‘[1] طلاق یقینا ایک بہت بڑی مصیبت ہے جس کی وجہ سے پورا خاندان برباد ہو جاتا ہے۔ حل:اس کا حل یہ ہے کہ زوجین اللہ تعالی کی نافرمانیوں ، گناہوں اور برائیوں سے پرہیز کریں۔اور اب تک جو گناہ کئے ہیں ان پر اللہ تعالی سے سچی معافی مانگیں۔کیونکہ جب اللہ تعالی راضی ہو گا تو زوجین بھی آپس میں ایک دوسرے سے راضی رہیں گے اور ان کی زندگی خوشی خوشی گذرے گی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ ﴾ ’’ اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو ، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو۔تو وہ تمہیں ایک محدود وقت(موت)تک عمدہ عیش وآرام کا فائدہ نصیب کرے گا۔اور ہر کارِ خیر کرنے والے کو اس کا اجر وثواب دے گا۔اور اگر تم منہ پھیر لو گے تو مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بڑے دن(روزِ قیامت)کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘[2] ’ عمدہ عیش وآرام ‘ میں زوجین کے مابین خوشگوار تعلقات بھی شامل ہیں۔ 2۔ شکوک وشبہات اور بد گمانیاں شکوک وشبہات اور بد گمانیوں کی بناء پر زوجین کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔اور بعض لوگ تو بے انتہاء شک و شبہ اور بد گمانی میں مبتلا رہتے ہیں۔اور بے بنیاد اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی بد گمانی کر لیتے ہیں۔اور بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے محض سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرکے زوجین اپنے تعلقات کو بگاڑ لیتے ہیں۔پھر اتنی بد اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے کہ مرد طلاق دینے کا پختہ عزم کر لیتا ہے یا بیوی اپنے خاوند سے بار بار طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہے۔ حل:اس کا حل یہ ہے کہ خاوند بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔بلا وجہ بد گمانی نہ کریں۔اور دونوں ایسی چیزوں سے پرہیز کریں جن کی بناء پر ان میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بہت زیادہ گمان کرنے اور تجسس سے منع کردیا ہے۔ اس کا فرمان ہے: |