اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ! اور اللہ تعالی ضرور یہ جان کر رہے گا کہ ایمان والے کون ہیں اور منافق کون ؟ [1] 14۔مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو خوش ہوتے ہیں منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کوئی اچھائی نصیب ہو تو انھیں بہت برا لگتا ہے اور اگر ان پر کوئی مصیبت آجائے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ جنگ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤھُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ فَرِحُوْنَ ﴾ ’’ اگر آپ کو کوئی بھلائی ملے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں:ہم نے تو اپنا معاملہ ہی درست رکھا تھا۔پھر وہ خوش خوش واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘[2] 15۔مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا اور ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنا منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ جنگی حالات میں بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، خود بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی خوفزدہ کرکے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔اِس کی سب سے بڑی دلیل جنگ خندق کا واقعہ ہے کہ جب کفار اپنے تمام گروہوں کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے ، انھوں نے ہر جانب سے اہلِ مدینہ پر چڑھائی کی تھی اور خود مدینہ کے بعض یہودی قبائل بھی مسلمانوں سے بد عہدی کرتے ہوئے کفار کا ساتھ دے رہے تھے ! اِن سنگین حالات میں مومنوں کی شدید آزمائش ہوئی اور انھیں جھنجوڑ کر رکھ دیا گیا۔مومنوں کی اِس حالت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے: ﴿ اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا ٭ ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا ﴾ ’’ جب وہ تمھارے اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب آنکھیں پھر گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے۔اِس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور وہ بری طرح ہلا دئیے گئے۔‘‘[3] ایسے میں منافق بول اٹھے اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرتے ہوئے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے لگے۔اللہ تعالی ان کے متعلق فرماتا ہے:﴿وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ |