ان کے قریب بٹھایا اور اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس پر سوار ہو جائیں۔وہ سوار ہوئیں اور پھر صفوان رضی اللہ عنہ سواری کی نکیل پکڑ کر لشکر کے پیچھے روانہ ہو گئے۔جب منافقوں نے یہ منظر دیکھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اکیلی آ رہی ہیں تو فورا ان پر بہتان باندھ دیا۔پھر ان کے بارے میں بدکلامی شروع کردی اور مدینہ منورہ میں یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے(نعوذ باللہ)برائی کی ہے۔منافقوں نے اِس بہتان کا اتنا پروپیگنڈا کیا کہ کئی مسلمان بھی اس میں بہک گئے۔اِس واقعہ کے نتیجے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ پریشان ہوئے۔خود عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں اور آپ کے والدین بھی شدید پریشانی میں مبتلا ہوئے۔آخر کار اللہ تعالی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کے متعلق آیات نازل کردیں جن میں اللہ نے اِس واقعہ کو ’ بہتان عظیم ‘ اور منافقوں کو جھوٹا قرار دیا۔ 13۔اللہ کی راہ میں آنے والی آزمائشوں کو برداشت نہ کرنا اور دین سے پھر جانا منافقوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ اگر انھیں خیر ملتی رہے تو مطمئن رہتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش آجائے تو اس پر صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اللہ کی عبادت کو ترک کرکے کفر کی طرف واپس پلٹ جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ ’’ اور بعض لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں۔اگر انھیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انھیں آ لیتی ہے تو(کفر کی طرف)پلٹ جاتے ہیں۔اپنی دنیا اور آخرت دونوں گنوا دیتے ہیں۔یہی واضح نقصان ہے۔‘‘[1] اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ وَ لَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ اَوَ لَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ ٭ وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’ اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو یہ کہتا ہے کہ ’ ہم اللہ پر ایمان لائے ‘ مگر جب اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو یوں سمجھتا ہے جیسے اللہ کا عذاب ہو۔اور اگر آپ کے رب کی طرف سے نصرت آجائے تو ضرور کہے گا کہ ہم(دل سے)تو تمھارے ساتھ ہی تھے۔کیا دنیا جہان کے لوگوں کے دلوں کا حال |