یہ آیت کریمہ ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خاطر ایک مسجد بنائی ، ان کا پروگرام یہ تھا کہ وہ اس مسجد کو اپنے اڈے اور کمین گاہ کے طور پر استعمال کریں گے۔اِس کے علاوہ وہ اس کے ذریعے مسلمانوں میں تفرقہ بھی ڈالیں گے۔انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی کہ آپ تشریف لائیں اور اس میں دو رکعت نماز ادا کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تبوک کو روانہ ہو رہے تھے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں واپسی پر یہاں نماز پڑھوں گا۔پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹ رہے تھے تو وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس مسجد کی حقیقت سے آگاہ کردیا گیا۔اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا نہ کی بلکہ اسے گرانے کا حکم دے دیا۔ نہایت افسو س کی بات ہے کہ اِس دور میں بھی بہت سارے لوگ مساجد کو مسلمانوں کے اتفاق واتحاد کا ذریعہ بنانے کی بجائے انھیں فرقہ واریت کا ذریعہ بناتے ہیں۔مسجد کے منبر ومحراب کو اپنے ان نظریات کی نشرو اشاعت کا ذریعہ بناتے ہیں کہ جو قرآن وحدیث کے سراسر خلاف ہیں۔اسی سے فرقے بنتے ہیں اور مسلمان گروہی تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 12۔حقائق کو مسخ کرنا اور افواہیں پھیلانا منافقوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اصل حقائق کو مسخ کرکے جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے اور بے بنیاد افواہیں پھیلاتے ہیں جس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان پریشان ہوں اور انھیں چین وسکون نصیب نہ ہو۔اِس کی سب سے بڑی دلیل واقعۂ افک ہے جس کے ذریعے منافقوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف زہر افشانی کی اور ان پر بدکاری کا بہتان باندھا۔ حالانکہ واقعہ صرف اتنا تھا کہ غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر مدینہ منورہ کے قریب جب لشکر نے پڑاؤ کرنے کے بعد کوچ کیا تو اُس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کیلئے گئی ہوئی تھیں۔چونکہ آپ دبلی پتلی تھیں اس لئے جب ان کا ہودج اٹھایا گیا تو اٹھانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو محسوس نہ ہوا کہ آپ اس میں نہیں ہیں۔ہودج اٹھا کر اونٹ پہ رکھ دیا گیا ، لشکر روانہ ہو گیااور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پیچھے رہ گئیں۔آپ جب اپنی جگہ پر واپس لوٹیں تولشکر کو وہاں نہ پاکر اسی جگہ پر بیٹھ گئیں تاکہ تلاش کرنے والا شخص تلاش کرتے کرتے جب وہاں پر آئے تو وہ انھیں پا لے۔انتظار کرتے کرتے آپ کی آنکھ لگ گئی۔ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہیں تاکہ کسی کی کوئی چیز گرے تو وہ اسے اٹھا لیں یا کوئی راستہ بھول جائے تو وہ اس کی راہنمائی کردیں۔جب موصوف کا وہاں سے گزر ہوا تو چونکہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو پردے کا حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا ہوا تھا اس لئے انھوں نے آپ کو پہچان لیا اور فورا کہا:انا للّٰه وانا الیہ راجعون۔یہ سن کر عائشہ رضی اللہ عنہا بیدا رہوگئیں اور فورا چہرے کا پردہ کرلیا۔صفوان رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری کو |