اور تین مرتبہ اپنے بائیں تھوک دو۔‘‘[1] حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تعالی نے وہ چیز ختم کردی۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِذَا نُودِیَ بِالصَّلَاۃِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ وَلَہُ ضُرَاطٌ ، حَتّٰی لَا یَسْمَعَ الْأذَانَ ، فَإِذَا قُضِیَ الْأذَانُ أَقْبَلَ ، فَإِذَا ثُوِّبَ بِہَا أَدْبَرَ ، فَإِذَا قُضِیَ التَّثْوِیْبُ أَقْبَلَ حَتّٰی یَخْطِرَ بَیْنَ الْمَرْئِ وَنَفْسِہِ، یَقُولُ:اذْکُرْ کَذَا وَکَذَا مَا لَمْ یَکُنْ یَذْکُرُ حَتّٰی یَظَلَّ الرَّجُلُ إِن یَّدْرِی کَمْ صَلّٰی) ’’ جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلتا ہے حتی کہ اس کی ہوا بھی خارج ہوتی ہے۔اور وہ اتنا دور چلا جاتا ہے کہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہیں پڑتی۔پھر اذان ختم ہونے کے بعد وہ واپس لوٹ آتا ہے۔پھر جب اقامت ہوتی ہے تو ایک بار پھر بھاگ جاتا ہے۔جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو دوبارہ لوٹ آتا ہے۔اور بندے کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے کہتا ہے:فلاں چیز یاد کرو ، فلاں کام یاد کرو۔وہ وہ کام یاد کراتا ہے جو اسے(نماز سے پہلے)یاد نہیں ہوتے۔اور اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے یہ بھی پتہ نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔‘‘[2] جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز پڑھی۔اس کے بعد فرمایا: (إِنَّ الشَّیْطَانَ عَرَضَ لِی فَشَدَّ عَلَیَّ یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ عَلَیَّ فَأَمْکَنَنِی اللّٰہُ مِنْہُ) ’’ بے شک شیطان میرے درپے ہوا ، پھر اس نے پوری کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے ، لیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر قابو پانے کی توفیق دی۔‘‘[3] اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ شیطان اگر امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خلل ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی امتی کو اپنا شکار بنا سکتا ہے۔والعیاذ باللہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کسی آدمی کے التفات(اِدھر اُدھر دیکھنے)کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ہُوَ اخْتِلَاسٌ یَخْتَلِسُہُ الشَّیْطَانُ مِنْ صَلَاۃِ أَحَدِکُمْ) ’’ وہ جب اِدھر اُدھر دیکھتا ہے تو عین اسی وقت شیطان اُس پر جھپٹا مار تا اوراس کی نماز میں سے کچھ حصہ اس سے چھین لیتا ہے۔‘‘[4] |