ہونے والے خوش نصیبوں میں شامل ہو جائیں گے۔ شیطان کیا چاہتا ہے ؟ شیطان کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ جس طرح وہ خود جہنمی ہے اسی طرح انسان کو بھی جہنمی بنا دے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ ’’ وہ(شیطان)اپنے پیروکاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی بن جائیں۔‘‘[1] شیطان کو یہ پتہ ہے کہ انسانوں کو جہنم میں پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ انھیں اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے سے دور رکھا جائے اور انھیں اُس کی نافرمانیاں کرنے پر آمادہ کیا جائے۔چنانچہ وہ اِس کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتا اوراپنے اِس ہدف کے حصول کیلئے مختلف چالیں چلتا اور انسان کوجہنم تک پہنچانے کے متعدد وسائل اختیار کرتا ہے۔لہذا آئیے اس کی چالوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ شیطان کی چالیں 1۔ بندوں کو کفر وشرک میں مبتلا کرنا اللہ تعالی کا فر مان ہے:﴿ کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِِذْ قَالَ لِلْاِِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِِنِّیْ بَرِیٓئٌ مِّنْکَ اِِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’ان(منافقوں)کی مثال شیطان جیسی ہے جو انسان سے کہتا ہے:کفر کر۔پھر جب وہ کفر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں۔میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔‘‘[2] اسی طرح اللہ تعالی کا فر مان ہے:﴿ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا٭ لَّعَنَہُ اللّٰہُ﴾ ’’ یہ مشرکین اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو پکارتے ہیں ، حقیقت میں وہ سرکش شیطان کو پکار رہے ہوتے ہیں۔جس پر اللہ نے لعنت کی ہے۔‘‘[3] ’شیطان ‘ نے ہی بنو آدم کے سامنے شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور انھیں ورغلاکر اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا۔اِس کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے زمانے سے ہوا ، جب انھوں نے ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر نامی بتوں کی پوجا شروع کی۔یہ در اصل ان کی قوم کے بعض صلحاء کے نام تھے۔ جب وہ فوت ہو گئے توشیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ وہ جن مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے وہاں تم بت |