تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لَعَلَّ عَلٰی صَاحِبِکُمْ دَیْنًا ؟)’’ شاید تمھارے اس ساتھی پر قرض ہے؟‘‘ تو لوگوں نے کہا:جی ہاں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا:(صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ)’’ تم خود ہی اس کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ اس پر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا:اس کا قرض میرے ذمہ ہے ، میں اس کی طرف سے ادا کردونگا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمھیں یہ وعدہ پورا کرنا ہو گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور اس پر صرف اٹھارہ یا انیس درہم قرض تھا۔[1] یہ اور اس طرح کی دیگر کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ایک ایسا آدمی جو اللہ کے راستے میں تین بار شہید ہو جائے اور اس پر قرض بھی ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی طرف سے اس کا قرض ادا نہ کردیا جائے ! تو عام آدمی کا کیا حال ہو گا ! لہذا قرض دار کو چاہئے کہ وہ پہلے تو جب قرض لے تو ادا کرنے کی نیت سے لے۔دوسرا یہ کہ پہلی فرصت میں اسے واپس لوٹائے کیونکہ موت کا کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کس لمحہ آ جائے اور کہاں آ جائے اور کس حالت میں آ جائے ! بلکہ قرض کی واپسی کیلئے مقروض کو ہمیشہ فکرمند رہنا چاہئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لَوْ أَنَّ لِی مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا مَا یَسُرُّنِی أَن لَّا یَمُرَّ عَلَیَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِیْ مِنْہُ شَیْیئٌ ، إِلَّا شَیْیئٌ أَرْصُدُہُ لِدَیْنٍ) ’’ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ اچھا نہیں لگے گا کہ تین روز گذر جائیں اور اس دوران اس کا کچھ حصہ میرے پاس باقی رہ جائے۔ہاں میں اس میں سے صرف اتنا سونا رکھ سکتا ہوں جس سے میں کسی کا قرض ادا کرسکوں۔‘‘[2] سامعین کرام ! یہ تھے حرام کمائی کے بعض اہم اسباب و وسائل جنھیں ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں بس رزق حلال ہی نصیب فرمائے اور حرام سے محفوظ رکھے۔ دوسرا خطبہ اللہ تعالی نے ہمیں حلال کھانے کا حکم دیا ہے۔اور ہمارا دین ہمیں حرام کمائی سے منع کرتا ہے۔لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں کا مطمح نظر صرف مال کا حصول ہے ، خواہ حلال اور جائز طریقوں سے حاصل ہو یا حرام اور نا جائز طریقوں سے حاصل ہو۔آج حلال وحرام کی تمیز بہت کم رہ گئی ہے۔اس کے کئی اسباب ہیں: پہلا سبب:خوفِ الہی نہیں رہا ! جی ہاں ، اللہ تعالی کا خوف اور اس کے عذاب کا ڈر بہت کم لوگوں میں رہ گیا ہے۔ |