Maktaba Wahhabi

340 - 492
زیادہ تر لوگ اللہ تعالی سے بے خوف نظر آتے ہیں۔ورنہ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو حرام کمائی کے جتنے طریقے ہم نے ذکر کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہ ہوتا۔ ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا توماپ تول میں کمی نہ ہوتی ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو سود کی حرمت معلوم ہونے کے باوجود سودی لین دین کو جاری نہ رکھا جاتا ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو لین دین کے معاملات میں دھوکہ ، فراڈ اور ملاوٹ وغیرہ نہ ہوتی ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو پوری بے شرمی کے ساتھ ہر معاملے میں رشوت نہ لی جاتی ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو خیانت نہ کی جاتی ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو چوری ، ڈاکہ زنی اور جوے بازی کو ترک کردیا جاتا ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو خرید وفروخت کے معاملات میں جھوٹی قسمیں نہ کھائی جاتیں ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو حرام اشیاء کا کاروبار نہ کیا جاتا ! ٭ اگر اللہ تعالی کا خوف ہوتا تو یتیموں کا مال نہ کھایا جاتا ! لیکن کیا کہئے کہ آج مسلمانوں کے دلوں سے خوفِ باری تعالی جاتا رہا۔جس کے نتیجے میں حرام خوری کو آج سرے سے عیب ہی نہیں سمجھا جاتا۔بلکہ دھڑلے کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ دنیا کر رہی ہے تو ہم کیوں نہ کریں ! ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے دلوں میں اللہ تعالی کا خوف پیدا کریں۔اور حرام ذرائع آمدنی کو کلی طور پر چھوڑ دیں۔ دوسرا سبب:راتوں رات مالدار بننے کی خواہش ! حرام کمائی کے مختلف وسائل اس لئے اختیار کئے جاتے ہیں کہ بہت سارے لوگ راتوں رات مالدار بننا چاہتے ہیں اور حصولِ رزق میں تاخیر کو برداشت نہیں کرتے۔ حالانکہ رزق کی تقسیم اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ﴾ ’’ ہم نے ہی ان کی روزی کو دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور ہم نے ہی ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں۔‘‘[1] رزق کے فیصلے اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں۔وہ جسے چاہے زیادہ دے اور جسے چاہے کم دے۔اللہ تعالی کا
Flag Counter