خواہوں کو خواہ مخواہ پریشان کرتے رہتے ہیں۔بلکہ کئی لوگ تو قرض لیتے ہی اس نیت سے ہیں کہ وہ اسے واپس نہیں لوٹائیں گے اور ہڑپ کر جائیں گے۔تو یہ بھی حرام کمائی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(أَیُّمَا رَجُلٍ یَدِیْنُ دَیْنًا وَہُوَ مُجْمِعٌ أَن لَّا یُوْفِیَہُ إِیَّاہُ ، لَقِیَ اللّٰہَ سَارِقًا) ’’ جو شخص اس عزم کے ساتھ قرض لے کہ وہ اسے واپس نہیں لوٹائے گا تو وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ چور ہو گا۔‘‘[1] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ أَدَائَ ہَا أَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ ، وَمَنْ أَخَذَ یُرِیْدُ إِتْلَافَہَا أَتْلَفَہُ اللّٰہُ) ’’ جو شخص لوگوں سے اِس ارادے کے ساتھ مال لے کہ وہ انھیں واپس ادا کردے گا تو اللہ تعالی اس کی طرف سے اسے ادا کردے گا۔اور جو آدمی ان کے مالوں کو اس ارادے کے ساتھ لے کہ وہ انھیں ہڑپ کرلے گا تو اللہ تعالی اس(کے مال)کو برباد کردے گا۔‘‘[2] یعنی اگر وہ ادا کرنے کی نیت سے قرض لے گا تو اللہ تعالی اس کیلئے آسانی کردے گا اور وہ قرض واپس کرنے کے قابل ہو جائے گا۔اور اگر وہ قرض کی ادائیگی سے پہلے فوت ہو جائے گا تو اللہ تعالی قیامت کے روز اس کے قرض خواہوں کو اپنی طرف سے راضی کرے گا۔اور اگر کوئی شخص شروع سے ہی بد نیت ہو اور اس کا ارادہ ہی یہ ہو کہ وہ قرض لے کر ہڑپ کر لے گا تو اللہ تعالی اموال کو برباد کرکے اسے آخرت میں سزا دے گا۔ قرض کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیِیَ ، ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْیِیَ، ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ دَیْنُہُ) ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ایک آدمی اللہ کے راستے میں شہید ہو جائے ، پھر اسے زندہ کیا جائے اور وہ دوبارہ شہید ہو جائے۔پھر اسے زندہ کیا جائے اور وہ سہ بارہ شہید ہو جائے۔اور اس پر قرضہ ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ اس کا قرضہ اس کی طرف سے ادا کردیا جائے۔‘‘[3] اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کی میت کو لایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ |