Maktaba Wahhabi

336 - 492
’’ اللہ تعالی کی لعنت ہوتی ہے رشوت دینے والے پر ،لینے والے پر اور اس پر بھی جو ان دونوں کے درمیان معاملہ طے کرواتا ہے۔‘‘[1] ہاں اگر کسی صاحبِ حق کو اس کا حق رشوت دئیے بغیر نہ مل رہا ہو تو اپنا حق لینے یا اپنے اوپر ظلم ہونے سے بچنے کیلئے وہ رشوت دے سکتا ہے۔اس صورت میں دینے والے کو گناہ نہیں ہو گا بلکہ لینے والے اور معاملہ طے کرانے والے کو ہی ہو گا۔[2] 9۔ حرام اشیاء کا کاروبار کرنا اشیائے محرمہ کا کاروبار کرنا حرام ہے۔اور جو شخص شریعت میں حرام کردہ چیزوں کے ساتھ تجارت اور کاروبار کرتا ہو اس کی اس کاروبار کے ذریعے ہونے والے آمدنی بھی حرام ہی ہوگی۔ مثلا سگریٹ ، تمباکو ، شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کا کاروبار حرام ہے۔اسی طرح موسیقی اور گانوں پر مشتمل کیسٹوں یا سی ڈیز کا کاروبار۔اسی طرح فلمی کیسٹوں اور سی ڈیز کا لین دین کرنا۔اسی طرح حرام جانوروں کی خرید وفروخت بھی حرام ہے اور ان کے ذریعے ہونے والی آمدنی بھی۔اس کے علاوہ کسی ناجائز کام کے ذریعے کمانا بھی نا جائز ہے۔مثلا بدکاری ، کہانت اور داڑھی مونڈ کرکمائی کرنا درست نہیں ہے۔ حضرت ابو مسعود الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ، زانیہ کی آمدنی اور نجومی کی کمائی سے منع فرمایا۔[3] اور جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا کتے اور بِلّے کی قیمت وصول کرنا جائز ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔[4] ہاں البتہ شکاری کتا اس سے مستثنی ہے۔[5] 10۔یتیموں کا مال کھانا بعض لوگ یتیموں کے سرپرست ہوتے ہیں۔اور یتیموں کو جو مال ان کے والد کی وراثت سے ملتا ہے ، یا حکومت ِ وقت یا کسی فلاحی تنظیم کی طرف سے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے یا کوئی مالدار آدمی ان کے اخراجات کیلئے پیسے دیتا ہے تو ان کے سرپرست ان کا مال نا جائز طور پر خود ہڑپ کر لیتے ہیں۔یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اپنے پیٹ
Flag Counter