اس میں انشورنس کی مختلف صورتیں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ کئی لوگ پیسوں کے عوض کچھ نمبر خرید لیتے ہیں ، پھر ان میں قرعہ اندازی ہوتی ہے اور بعض نمبروں کیلئے انعامات نکالے جاتے ہیں۔تو یہ بھی جوا ہے۔ 4۔ سودی لین دین سودی لین دین کے ذریعے کمانا بھی حرام ہے۔ اللہ تعالی نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے سودی لین دین کو قطعی طور پر چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہو گا۔ فرمایا:﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن ٭ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ﴾ ’’ اے ایمان والو ! اللہ تعالی سے ڈرو اور اگر تم سچے مومن ہو توجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ہاں اگر توبہ کر لو تو تمھارا اصل مال تمھارا ہی ہے۔نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘[1] سامعین کرام ! اگر آپ میں سے کوئی شخص سودی لین دین کرنے میں ملوث ہے تووہ فورا اس سے سچی توبہ کرے اوراسے چھوڑ دے۔نہ آپ خودکسی شخص سے اور نہ ہی کسی بنک سے سود پر قرضہ لیں۔نہ اپنی ضروریات کیلئے اور نہ ہی تجارتی مقاصد کیلئے۔اور نہ ہی کسی کو سود پر قرضہ دیں۔اور نہ ہی کسی بنک میں فکس منافع پر رقم جمع کرائیں کیونکہ یہ بھی سود ہی کی ایک شکل ہے۔ جاہلیت کے دورمیں جب ایک مالدار شخص کسی غریب کو قرضہ دیتا تو سود کے ساتھ دیتا۔پھر جب وہ مقررہ مدت میں قرضہ واپس نہ کرتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے مدت بڑھا دیتا۔پھر کرتے کرتے سود اصل قرضہ سے زیادہ ہو جاتا۔یہ بد ترین ظلم تھا جسے اسلام نے قطعی طورپر حرام کردیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’ اے ایمان والو ! تم بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔‘‘ [2] سود کتنا بڑا گناہ ہے ! اس کا اندازہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کر سکتے ہیں: (اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا ، أَیْسَرُہُمَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ) |