Maktaba Wahhabi

329 - 492
پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرکے پراگندہ اور غبار آلود حالت میں آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کرتا ہے:اے میرے رب ، اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا ، اس کا پینا اور اس کا لباس حرام کمائی سے ہوتا ہے اور اس کے جسم کی پرورش حرام رزق سے ہوئی ہوتی ہے تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ! ‘‘ حرام کمائی ایک سنگین جرم حرام طریقوں سے مال کمانا بہت بڑا گناہ ہے اوراللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت کافرمان ہے:﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ ’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو(تو ٹھیک ہے)‘‘[1] اسی طرح اس کا فرمان ہے:﴿ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’ اور ایک دوسرے کا مال نا حق طریقے سے نہ کھایا کرو۔اور نہ ہی حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘ [2] ان دونوں آیات میں(بِالْبَاطِلِ)یعنی ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر ناجائز اور ناحق طریقہ شامل ہے مثلا چوری کرنا ، کسی کا مال غصب کرنا ، خرید وفروخت میں دھوکہ اور فریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سودی لین دین کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، جوے بازی کرنا اور حرام چیزوں کی تجارت کرنا وغیرہ۔ اور دوسری آیت میں خاص طور پر حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا مال ناجائز طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے جبکہ اس دور میں یہ چیز عام ہے۔چنانچہ تھانوں میں پولیس کو رشوت دے کر جھوٹے کیس درج کروا لئے جاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو پریشان کیا جاتا بلکہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اور گواہوں ، وکیلوں اور ججوں کو رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کرو ا لیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ کسی شریف آدمی کا مال ہتھیانے یا اس کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کیلئے ہی کیا جاتا ہے۔فإلی اللّٰه المشتکی ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰه۔
Flag Counter