سکتیں۔لہذا صرف اور صرف پاکیزہ چیزوں کے حصول کیلئے ہی جد وجہد کرنی چاہئے اور وہ بھی جائز وسیلوں کے ساتھ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آخر رزقِ حلال ہی کیوں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالی نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے اس لئے ہماری پوری جد وجہد رزق حلال کیلئے ہی ہونی چاہئے۔دوسرا اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: (لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْئُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنْ حَلَالٍ أَمْ مِّنْ حَرَامٍ) ’’ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ جب آدمی کو کوئی پروا نہ ہوگی کہ اس نے مال کیسے حاصل کیا ، حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے ! ‘‘[1] اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس زمانے کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی اب وہی زمانہ ہے کہ جس میں بہت سارے لوگوں کو مطلقا اس کی پروا نہیں کہ مال کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے ؟ حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر بس یہی خواہش ہے کہ مال زیادہ سے زیادہ جمع ہو۔جہاں سے ہو اور جیسے ہو۔لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ لوگوں کو اس سلسلے میں متنبہ کیا جائے۔ تیسرا اس لئے کہ قیامت کے روز ہر انسان سے مال کے متعلق دو سوالات ہونے والے ہیں۔مال کہاں سے کمایا تھا اوراسے کہاں خرچ کیا تھا ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ:عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلاہُ ، وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ، وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ) ’’ قیامت کے دن پانچ چیزوں کے بارے میں سوالات سے پہلے کسی بندے کے قدم اپنے رب کے پاس سے ہل نہیں سکیں گے:عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گذارا ؟ جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گنوایا ؟ مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟ اور علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کتنا عمل کیا ؟۔‘‘[2] چوتھا اس لئے کہ حرام کمانے والے انسان کی دعائیں ہی قبول نہیں کی جاتیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(یَا أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ وَلاَ یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا) ’’ اے لوگو ! اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے۔‘‘[3] |