سے دو چار ہوا ہو اور وہ اس کے غم میں اس قدر نڈھال ہوجائے کہ اپنی زندگی سے ہی مایوس ہو جائے ، ماضی کی مشکلات اور آزمائشوں کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ ہر وقت غمزدہ رہتا ہو اور آخر کار وہ یہ فیصلہ کر لے کہ اب اس کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تو یہ عقلمندی نہیں ہے۔ماضی میں جو کچھ ہوا ، آپ جن پریشانیوں سے دوچار ہوئے ، جو بھی ہوا اسے بھول جائیے اور پرانی باتوں کو اپنے ذہن میں مت جگہ دیجئے۔ جہاں تک حال کا تعلق ہے تو اگر کوئی انسان کسی آزمائش یا تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے اس کو برداشت کرنا چاہئے اور اللہ تعالی سے اس کے ازالے کی دعا بار بار کرنی چاہئے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کی پریشانیوں کو ختم کر سکے۔اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس پر آئی ہوئی مشکلات کو ٹال سکے۔اللہ ہی ہے جو مجبور ولا چار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اسے آزمائشوں سے نجات دیتاہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ﴾ ’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ؟ اور کون تمھیں زمین کا جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے ؟ ‘‘[1] اور جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے تو آنے والی زندگی کے بارے میں انسان خواہ مخواہ پریشان ہو جاتا ہے اور سوچوں میں ڈوب جاتا ہے کہ پتہ نہیں کل کیا ہو گا ! میرے بیوی بچے کن حالات کا سامنا کریں گے ! میرے کاروبار کا کیاہو گا ! وغیرہ اور حقیقت یہ ہے کہ آنے والے زمانے کے ایک لمحہ کا بھی انسان کو پتہ نہیں کہ اس میں کیا ہو گا ، اس لئے اسے اللہ تعالی پر مکمل بھروسہ کرنا چاہئے اور اس پر حسن ظن رکھتے ہوئے اسے اس سے خیر کی امیدرکھنی چاہئے۔کیونکہ تمام امور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور وہی مدبر اور مسبب الاسباب ہے۔موجودہ پریشانیوں کی بناء پرمستقبل کے بارے میں بد شگونی لینے کی بجائے اللہ تعالی سے موجودہ پریشانیوں کے ازالے کا سوال کرے اور مستقبل میں خیر وبھلائی کی دعا بھی کرے اور امید بھی رکھے۔یوں وہ پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے اور یقینی طور پر اس کا یہ طرز عمل اسے اقدامِ خود کشی سے باز رکھنے میں بہت حد تک معاون ومدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ پریشانیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے ؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ خود کشی تو ٹھہری حرام ، لیکن پریشانیوں اور آزمائشوں کا علاج کیا ہے؟ اور ان کا ازالہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ 1۔ جو شخص آزمائشوں اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہو اسے اللہ رب العزت کی تقدیر پر رضامندی کا اظہار کرنا چاہئے جو کہ |