کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود کشی کا مرتکب اگر موحد ہو گا تو وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اسے اللہ تعالی(اگر چاہے گا تو)اس کے جرم کی سزادے کر جنت میں داخل کردے گا۔خود کشی کے متعلق احادیث مبارکہ میں جو سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سے مقصود اِس جرم کی سنگینی کو بیان کرنا اور اقدامِ خود کشی کی شدید حوصلہ شکنی کرنا ہے۔واللہ اعلم خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں ؟ خودد کشی کرنے والے انسان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا اس کے بغیر ہی اسے دفن کر دیا جائے گا؟ یہ مسئلہ بڑا اہم ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ تو پڑھنی چاہئے لیکن جس جگہ پر کسی شخص نے خود کشی کا ارتکاب کیا ہو وہاں کے اہل علم وفضل اور اس علاقے کے معتبر لوگوں کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔صرف عام لوگوں کو ہی اس کی نماز جنازہ میں شرکت کرنی چاہئے۔تاکہ اس کے سنگین جرم کی حوصلہ شکنی ہو اور لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی وجہ سے خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ میں علاقے کے اہل علم وفضل نے شرکت نہیں کی۔ اس کی دلیل حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک میت کو لایا گیا جس نے اپنے ہی تیروں کے ساتھ اپنے آپ کو مار ڈالا تھا۔تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی تاہم اس کی نماز جنازہ سے کسی کو روکا بھی نہیں۔یہ اُس بات کی دلیل ہے جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔ خود کشی آخر کیوں ؟ جودلائل ہم نے ذکر کئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ خود کشی کرنا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔لہذا دنیاوی مصیبتوں اور آزمائشوں سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ ان پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جھیلنا چاہئے اور انھیں اپنے لئے گناہوں کاکفارہ سمجھنا چاہئے۔ انسان جن پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے بعض کا تعلق ماضی کے ساتھ ہوتا ہے، بعض کا تعلق حال کے ساتھ اور بعض کا تعلق مستقبل کی فکر سے ہوتا ہے۔ اگر ان کا تعلق ماضی کے ساتھ ہو ، مثلا گذرے ہوئے زمانے میں کسی نے اس پر ظلم کیا ہو ، یا کسی بڑی مصیبت |