کرکے آئی یہاں تک کہ اس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے سوائے اللہ تعالی کے کسی کا ڈر اورخوف نہ تھا۔[1] اس آیت کریمہ کے الفاظ ﴿یَعْبُدُوْنَنِی لاَ یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا﴾ نہایت قابل غور ہیں۔اور ان کا مطلب یہ ہے کہ امن وامان کا قیام تب تک ممکن نہیں جب تک مسلمان اکیلئے اللہ تعالی کی عبادت نہ کریں اور جب تک شرک سے پرہیز نہ کریں۔اور اگر وہ شرک کا ارتکاب کریں گے تو ان سے امن وامان کی نعمت کو یقینی طور پرچھین لیا جائے گا۔اور آج امت مسلمہ کا جو حال ہے وہ اسی چیز کا ثبوت پیش کرر ہا ہے۔ بلکہ اللہ تعالی نے ایک اور آیت میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ جو مومن اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی ملاوٹ نہیں کریں گے انہی مومنوں کو امن نصیب ہو گا۔ ارشاد باری ہے:﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ﴾ ’’ جو لوگ ایمان لائے ، پھر اپنے ایمان کو ظلم(شرک)سے آلودہ نہیں کیا انہی کیلئے امن وسلامتی ہے اور یہی لوگ راہِ راست پر ہیں۔ ‘‘[2] تیسرا سبب:دعا کرنا دعا ہر خیر کی چابی ہے۔لہذا مسلمانوں کو دیگر ضروریات کی طرح امن وامان کے حصول کیلئے بھی اللہ تعالی سے بار بار دعا کرنی چاہئے۔ہر مسلمان کو اپنی سلامتی ، اپنے اہل وعیال کی سلامتی اور عام مسلمانوں کی سلامتی کیلئے نہایت اخلاص کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں دستِ دعا پھیلانا چاہئے۔کیونکہ وہی سلامتی دینے والا ہے ، اس کے سوا کوئی نہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے تھے: (اَللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ) ’’ ’’ اے اللہ ! تو سلامتی والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے۔ تو بابرکت ہے اے بزرگی اور عزت والے۔‘‘[3] اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی صبح وشام کیا کرتے تھے: (اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَدُنْیَایَ وَأَہْلِیْ وَمَالِیْ،اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِیْ وَآمِنْ رَوْعَاتِیْ،اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ،وَمِنْ فَوْقِیْ ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ) |