خون اور ان کے مال محفوظ نہ ہوں تو وہ یقینا سچا مومن نہیں۔اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا ہو گا۔ دوسرا سبب:اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنا اور شرک سے مکمل طور پر بچنا ایمان اورعمل صالح کی بنیاد اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے۔چنانچہ جب تمام مسلمان بحیثیت مجموعی اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ، ان میں سچا ایمان ہو گا اور وہ نیک عمل کرنے والے ہونگے تو اللہ تعالی کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انھیں ضرور بالضرور امن وامان نصیب فرمائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِی لاَ یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾ ’’اور تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور بالضرور خلافت دے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی۔ اور ان کے دین کو ضرورمضبوط کرے گا جسے اس نے ان کیلئے پسند کیا۔اور ان کے خوف کو یقینا امن میں تبدیل کردے گا۔وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو شخص اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘[1] یہ آیت کریمہ ان حالات میں نازل ہوئی کہ جب معاشی تنگ دستی تھی ، مدینہ منورہ سے باہر خوف وہراس کی کیفیت طاری تھی اور کوئی تجارتی قافلہ ڈاکوؤں سے محفوظ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالی نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو خلافت دی تو دین راسخ ہو گیا اور خوف وہراس امن میں تبدیل ہو گیا۔امن وامان کا عالم یہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو کی تھی کہ(فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتَرَیَنَّ الظَّعِیْنَۃَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِیْرَۃِ حَتّٰی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَۃِ ، لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّٰہَ) ’’ اگر تمھاری زندگی لمبی ہوئی تو تم ضرور بالضرور دیکھو گے کہ ایک عورت اکیلی(الحیرۃ)سے سفر کر کے آئے گی یہاں تک کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے سوائے اللہ تعالی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔‘‘(یعنی راستے پر امن ہو جائیں گے۔)اس کے عین مطابق عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک عورت(الحیرۃ)سے اکیلی سفر |