’’ اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا وآخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا ، اپنے اہل وعیال اور مال ودولت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے اور مجھے ڈر اور خوف میں امن عطا کر۔ اے اللہ ! تو میری حفاظت فرما میرے سامنے سے ، میرے پیچھے سے ، میری دائیں طرف سے ، میری بائیں طرف سے اور میرے اوپر سے۔اور میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اچانک اپنے نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔‘‘[1] چوتھا سبب:اخوت وبھائی چارے کو فروغ دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔لہذااسے اپنے بھائی کا ہمدرد اور خیرخواہ ہونا چاہئے۔اسے چاہئے کہ وہ اس کے خون کا محافظ ہو ،اس کے مال اوراس کی عزت کا محافظ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ،لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلُہُ وَلَا یَحْقِرُہُ، اَلتَّقْوٰی ہٰہُنَا ، وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ:دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ) ’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے ، نہ اسے رسوا کرتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرکے فرمایا کہ تقوی یہاں ہے۔پھر فرمایا:آدمی کی برائی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔اور ہر مسلمان کا خون ، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ‘‘[2] مسلمان اپنے بھائی کیلئے ہر وہ چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ہر اس چیز کو اس کیلئے نا پسند کرے جسے اپنے لئے نا پسند کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ) ’’ تم میں سے کوئی شخص(کامل)ایمان والا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘[3] پانچواں سبب:نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا)دین اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ |