النَّارِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ،قَالَتِ النَّارُ:اَللّٰہُمَّ أَجِرْہُ مِنَ النَّارِ) ’’ جو شخص اللہ تعالی سے تین مرتبہ جنت کا سوال کرے توجنت کہتی ہے:اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کردے۔اور جو آدمی جہنم سے تین مرتبہ پناہ طلب کرے توجہنم کہتی ہے:اے اللہ ! اسے جہنم سے پناہ دے۔‘‘ [1] یعنی خود جہنم بھی اس سے بچنے کی دعا کرنے والے کیلئے دعا کرتی ہے کہ اے اللہ ! اسے مجھ سے بچا لے۔ اور اس سلسلے میں ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ سامنے رکھنا چاہئے جو کہ خود بھی جہنم سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ دعا اِس قدر اہتمام کے ساتھ سکھلاتے تھے کہ جیسے انھیں قرآن مجید کی ایک سورت سکھلا رہے ہوں: (اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ،وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) ’’ اے اللہ ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اورقبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اورمسیحِ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ [2] اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وبیشتر یہ دعا مانگتے تھے: ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ’’ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں اچھائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی دے۔اور ہمیں عذابِ جہنم سے بچا۔‘‘[3] 4۔تقوی ’ تقوی ‘ سے مراد ہے اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنا اور برائیوں اور گناہوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھنا۔لفظ ’ تقوی ‘ وقایہ سے ہے جس کا مطلب ہے اپنے اور گناہوں کے درمیان خوفِ الٰہی کو رکاوٹ بنانا۔لہذا جو شخص اللہ تعالی کے خوف کی بناء پر گناہوں سے بچتا رہے تو یہ چیز اس کیلئے جہنم سے آزادی کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ٭ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا ﴾ |