پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا تھا اور اس نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور وہ قرآن کا قاری تھا ، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا۔پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا:ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا:میں نے علم حاصل کیا ، پھر لوگوں کو تعلیم دی اور تیری رضا کی خاطر قرآن کو پڑھا۔اللہ تعالی کہے گا:تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے علم صرف اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کہا گیا۔پھر اللہ تعالی اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جسے اللہ تعالی نے نوازا تھا اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا تھا۔اللہ تعالی اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا۔پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا:ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا؟ وہ جواب دے گا:جہاں کہیں خرچ کرنا تجھے پسند تھا وہا ں میں نے محض تیری رضا کی خاطر خرچ کیا اور ایسی کوئی جگہ میں نے چھوڑی نہیں۔اللہ تعالی کہے گا:تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے تو محض اس لئے خرچ کیا تھا کہ تجھے سخی کہا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کہا گیا۔ پھر اللہ تعالی اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘[1] 3۔ دعا جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا تیسرا سبب ہے:دعا یعنی اللہ تعالی سے دعا کرنا کہ وہ جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے اور اس کے عذاب سے بچائے۔ عباد الرحمن کی صفات میں ایک صفت اللہ تعالی یوں بیان فرماتا ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ٭ إِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ﴾ ’’ اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بد ترین جگہ ہے۔‘‘ [2] لہذا رحمن کے بندوں کو چاہئے کہ وہ جہنم کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں۔اور اس کی فضیلت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، قَالَتِ الْجَنَّۃُ:اَللّٰہُمَّ أَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ ، وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ |