عہدِ صدیقی کے اہم کارنامے محترم حضرات ! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو اس کا حق ادا کردیا۔چنانچہ انھوں نے اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کیلئے وہ سب کچھ کیا جو انھیں کرنا چاہئے تھا اور جو وہ کر سکتے تھے۔انھوں نے کمزور کو اس کا حق دلوایا ، طاقتور کو ظلم سے روکا ، عدل وانصاف قائم کیا اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سر انجام دینے کیلئے اپنی فوجوں کو مختلف سمتوں کی طرف روانہ کیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ہی تھی کہ کئی فتنوں نے سر اٹھا لیا۔کئی عرب قبائل مرتد ہو گئے ، مدینہ منورہ میں رہائش پذیر منافق اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہو گئے ، کئی جھوٹے لوگوں نے نبوت کا دعوی کردیااور اہلِ مدینہ پر اندرونی وبیرونی خطرات منڈلانے لگے۔لیکن اللہ رب العزت نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جس بصیرت سے نوازا تھاانھوں نے اسے بھر پور استعمال کرتے ہوئے ان تمام فتنوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چونکہ جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں مختلف حالات ، جنگ وصلح ، خوف وامن ، شدت وآسودگی ہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اس لئے فہمِ اسلام میں ان کی شخصیت منفرد تھی۔اور اسی لئے وہ اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان اور تمام تند وتیز آندھیوں کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے۔ خلافت سنبھالنے کے بعد ان کے اہم کارناموں کا تذکرہ اِس خطبہ میں تفصیل کے ساتھ تو نہیں کیا جا سکتا ، تاہم مختصر طور پر ہم ان کے بعض کارناموں کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ 1۔ جیش ِ اسامہ کی روانگی سب سے پہلا مسئلہ جیش ِ اسامہ کی شام کی طرف روانگی کا تھا جس کا حال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ! اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ بنایا جاتا توآج اللہ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔پھر انھوں نے یہی بات دوسری اور تیسری مرتبہ بھی کہی۔لوگوں نے کہا:بس کرو ابو ہریرہ۔تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سات سو فوجیوں کا سپہ سالار بنا کر شام کی طرف روانہ فرمایا۔جب اس لشکر نے(ذو خشب)مقام پر پڑاؤ ڈالا تو اِدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور مدینہ کے ارد گرد بسنے والے کئی عرب قبائل مرتد ہو گئے۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک وفد کی شکل میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے:اے ابو بکر ! اس لشکر کو واپس بلا لیجئے ، یہ شام کی طرف متوجہ ہے اور اِدھر مدینہ کے آس پاس عرب قبائل مرتد ہو رہے ہیں۔ |