تم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں بلکہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے افضل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیعت کی۔اس کے بعددیگر لوگوں نے بھی ان کی بیعت کی۔[1] اِس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بن گئے۔ انھوں نے خلافت سنبھالتے ہی ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ حمد وثناء کے بعد ، اے لوگو ! مجھے تمھارا ذمہ دار بنایا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔اگر میں نے کوئی اچھا کام کیاتو تم میری معاونت کرنا اور اگر میں نے کوئی غلط کام کیا تو مجھے سیدھا کردینا۔سچ بولنا امانت ہے اور جھوٹ بولنا خیانت ہے۔تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے یہاں تک کہ میں اللہ کی مشیئت کے ساتھ اس کا حق اس کو دلا دوں۔اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اللہ کی مشیئت کے ساتھ اس سے حق لے لوں۔جو قوم جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیتی ہے اللہ تعالی اس پر ذلت کو مسلط کردیتا ہے۔اور جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے اسے اللہ تعالی ضرور آزماتا ہے۔تم میری اطاعت اُس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں۔اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم میری اطاعت نہ کرنا۔اب اٹھو اور نماز ادا کرو ، اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے۔‘‘[2] اِس تاریخی خطبہ میں ویسے تو تمام باتیں نہایت اہم ہیں لیکن ان کی آخری بات کہ ’ تم میری اطاعت اُس وقت تک کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں۔اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم میری اطاعت نہ کرنا۔‘ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک حکومت وسیاست کے تمام امور کا منبع ومصدر قرآن وحدیث ہی تھے۔انھوں نے ہمیشہ ان دونوں مصادر کو اپنے سامنے رکھا اور انہی کی روشنی میں حکومت وسلطنت کے امور چلاتے رہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا اور ان کے بعد آنے والے تمام خلفائے راشدین کا دور اِس امت کا سب سے تابناک دور تھا۔پھر جیسے جیسے حکمران قرآن وحدیث سے دور ہوتے چلے گئے ویسے ویسے اِس امت کی ذلت ورسوائی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰه |