حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ! اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی حفاظت کرنے والا بھی کوئی نہ بچے تو میں پھر بھی اُس لشکر کو واپس آنے کا حکم نہیں دے سکتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا۔اور نہ ہی میں وہ جھنڈا سرنگوں کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہرایا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے لشکر اسامہ کو سفر جاری رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ان کا جس قبیلے سے بھی گذر ہوتا اورجو مرتد ہونے کا سوچ رہا ہوتا اس قبیلے کے لوگ کہتے:اگر ان لوگوں کے پاس طاقت نہ ہوتی تو یہ اپنے گھروں سے نہ نکلتے ، اس لئے انھیں چھوڑ دو یہاں تک کہ ان کی رومیوں سے لڑائی ہو۔چنانچہ اس لشکر کی اہلِ روم سے لڑائی ہوئی، مسلمانوں نے رومیوں کو شکست سے دوچار کیا ، ان میں سے کئی لوگوں کو قتل کیا اور صحیح سالم واپس لوٹ آئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ مرتد ہونے کا سوچ رہے تھے وہ اسلام پر ثابت قدم رہے۔[1] 2۔ مانعین زکاۃ کے خلاف اعلانِ جنگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا تھا جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرمایا: (وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عِقَالًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم لَقَاتَلْتُہُمْ عَلٰی مَنْعِہٖ) ’’اللہ کی قسم ! جولوگ ایک رسی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ، اگرمجھے نہیں دیں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘ [2] ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ اِس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اسلام کا دقیق فہم رکھتے تھے۔دین اسلام کیلئے نہایت غیرت مند تھے۔اور عہد نبوی میں دین اسلام جس شکل میں موجود تھا اس کو اس کی اصل ہیئت پر رکھنے کیلئے پر عزم تھے۔ 3۔ فتنۂ ارتداد کا سد باب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض عرب قبائل مرتد ہو گئے تھے جس کے کئی اسباب تھے۔اہم اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ نومسلم لوگوں کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے جس سے وہ انتہائی بد دل ہوئے اور دین اسلام سے مرتد ہو گئے۔اسی طرح جاہلیت کی طرف لوٹنے کی چاہت ، اقتدار کی طمع ، قبائلی عصبیت اور حسد وغیرہ جیسے اسباب اس فتنہ کا موجب بنے۔ |