اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنی پیٹی کا ایک حصہ کاٹ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا۔اسی لئے انھیں ’’ ذات النطاقین ‘‘ کہا جاتا تھا۔[1] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غارِ ثور میں دونوں مسافر رات کے اندھیرے میں ایک کٹھن اور انتہائی مشکل راستہ طے کرکے غارِ ثور تک پہنچے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر رُکنے کے لئے کہا اور خود اندر چلے گئے۔اندر جاکر اسے صاف کیا ، اس کی ایک جانب ایک سوراخ دیکھا تو اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کا منہ بند کردیا۔ابھی دو سوراخ اور بھی تھے جن میں انھوں نے اپنے پاؤں رکھ دئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر تشریف لانے کے لئے کہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے اور اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں سر رکھ کر سوگئے۔اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاؤں پر کسی زہریلے جانور نے کاٹا لیکن آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کی خاطر بالکل حرکت نہ کی۔ البتہ آپ کے آنسو نہ رُک سکے۔چند آنسو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھی گرے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رونے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! کسی چیز نے مجھے کاٹ لیا ہے۔تو آپ اٹھے اور جس جگہ پر زہریلے جانور نے کاٹا تھا وہاں آپ نے اپنا لُعابِ مبارک لگایا۔اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا درد جاتا رہا۔[2] قریش کے سراغ رساں افراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے کرتے اس غار کے دہانے پر جا پہنچے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں غار میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا ، میں نے اپناسر اوپر کواٹھایا تو مجھے تلاش کرنے والے لوگوں کے قدم نظر آئے۔میں نے کہا:اے اﷲ کے نبی ! اگر ان میں سے کسی شخص نے اپنی نظر نیچے جھکالی تو وہ یقینا ہمیں دیکھ لے گا۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یَا أَبَا بَکْر ! مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُہُمَا) ’’اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اﷲ ہے۔‘‘ [3] 3۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مضبوط موقف جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اِس دار فانی سے رخصت ہو گئے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت ہی گہرا صدمہ پہنچا جس سے وہ نہایت افسردہ اور ان کے حوصلے بہت ہی پست ہو گئے۔حتی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے بہادر اور شجاع صحابی نے بھی یہ کہہ دیا کہ(وَاللّٰہِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ)’’ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ کی قسم ! میرے دل میں یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت نہیں آئی۔اور عنقریب |