انھوں نے کس طرح اسلام قبول کیا ، آئیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سنیں کہ انھوں نے کیسے اسلام قبول کیا۔وہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقِ خاص اور گہرے دوست تھے۔اور جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے:ابو بکر ! یہ تمہارا دوست دیوانہ ہو گیا ہے۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:کیوں انھیں کیا ہوا ؟ انھوں نے کہا:وہ دیکھو ، وہ مسجد میں بیٹھا ایک معبود کی عبادت کی طرف دعوت دے رہا ہے اور وہ دعوی کرتا ہے کہ اسے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:ا نہوں نے واقعتا ایسی بات کی ہے ؟ انھوں نے کہا:ہاں جاؤ دیکھو وہ مسجد میں بیٹھا یہی تو کہہ رہا ہے۔چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ان سے پوچھا:ابو القاسم! مجھے آپ کی طرف سے کیا بات پہنچی ہے ؟ آپ نے فرمایا:ابو بکر ! آپ کو کیا بات پہنچی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا:مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اکیلئے اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور آپ نے دعوی کیا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہاں ابو بکر ! اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔اور مجھے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مصداق بنایا ہے اور مجھے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا ہے۔‘‘ تب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے آپ سے کبھی جھوٹی بات نہیں سنی ہے اور آپ واقعتا رسالت کے اہل ہیں کیونکہ آپ امین ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ، آپ کا کردار اچھا ہے۔آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے ، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت کی اور آپ کی تصدیق کی۔اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ جو دین لے کر آئے ہیں وہ بالکل برحق ہے۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جہاں کہیں بلایا انھوں نے کبھی پس وپیش نہیں کی۔[1] یعنی ابتدائی دور میں جب دیگر لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے تھے تو اس وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کیا ، نہ صرف رسو ل تسلیم کیا بلکہ اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور ساتھ بھی دیا۔یہ وہ بات ہے جس کا اعتراف خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران ابو بکر رضی اللہ عنہ اِس طرح آئے کہ انھوں نے اپنے کپڑے کا ایک کونا اتنا اٹھایا ہوا تھا کہ گھٹنا ظاہر ہو رہا تھا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اِس حالت میں آتے دیکھ کر فرمایا: (أَمَّا صَاحِبُکُمْ فَقَدْ غَامَرَ)’’ تمھارا ساتھی کسی سے لڑ کر آ رہا ہے۔‘‘(ان پر غصہ کے آثار نمایاں تھے) |