Maktaba Wahhabi

263 - 492
بھی ہیں۔[1] ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل یقینا اللہ تعالی کی رضا کیلئے ہی تھا ورنہ ان پر ان غلاموں میں سے کسی کا کوئی احسان نہ تھا کہ وہ اس کا بدلہ چکاتے۔اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں یہ خوشخبری دی کہ ﴿ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی﴾ ’’ وہ عنقریب راضی ہو جائے گا۔‘‘ 4۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے رشتہ داروں پر مال خرچ کرتے تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرتے تھے۔انہی میں سے ایک مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو ایک محتاج آدمی تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ انھیں کچھ ماہوار وظیفہ دیا کرتے تھے۔لیکن جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقوں کی جانب سے بدکاری کی تہمت لگائی گئی اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے تو ان کی صف میں یہ مسطح بھی رضی اللہ عنہ شامل ہو گئے۔چنانچہ آسمان سے وحی کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھالی کہ (وَاللّٰہِ لَا أُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ شَیْئًا أَبَدًا بَعْدَ مَا قَالَ لِعَائِشَۃَ)’’ اللہ کی قسم ! اب جبکہ اِس مسطح رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی ہے تو میں اس پر کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔‘‘ تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’ اور تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ معاف کر دینا اور در گذر کر دینا چاہئے۔کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ وہ بہت معاف کرنے والا ، بڑامہربان ہے۔‘‘[2] اِس آیت میں اللہ تعالی نے عفو و رگذر کی تلقین کی اور فرمایا کہ ’’ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:(بَلٰی وَاللّٰہِ یَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا) ’’ کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم یقینا یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کردے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے مسطح رضی اللہ عنہ کا خرچہ پہلے کی طرح جاری کردیا۔[3] اِس واقعہ سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر مال خرچ کرتے تھے ، وہاں ان کی ایک اور عظیم صفت کا بھی پتہ چلتا ہے اور وہ ہے عفو ودرگذر۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُس شخص کو معاف کردیا جو اُن کی
Flag Counter