سے اُس دن میرے پاس مال موجود تھا۔میں نے دل میں کہا:آج حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جانے کا بہترین موقعہ ہے ، لہذا میں اپنا آدھا مال لے آیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے پوچھا:اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ میں نے کہا:جتنا مال آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اتنا ہی گھر والوں کیلئے چھوڑ آیا ہوں۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا پورا مال لے آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔آپ نے پوچھا:اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو ؟ تو انھوں نے کہا:میں ان کیلئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ تب میں نے کہا:میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔ [1] 3۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ محض اللہ تعالی کی رضا کیلئے غلاموں کو آزاد کراتے تھے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی٭ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ٭ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی ٭ اِِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی ٭ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ ’’ اور جو پرہیز گار ہو گا اسے اُس(آگ)سے دور رکھا جائے گا جس نے پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیا۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہ تھا جس کا وہ بدلہ چکاتا۔بلکہ اس نے تو محض اپنے رب برتر کی رضا کیلئے(مال خرچ کیا)اور جلد ہی وہ راضی ہو جائے گا۔‘‘[2] ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے اُس شخص کی دو صفات ذکر کی ہیں جسے جہنم کی آگ سے دور رکھا جائے گا۔ پہلی صفت یہ کہ وہ متقی اورپرہیزگار ہو۔دوسری یہ کہ وہ اپنی پاکیزگی اورمحض اللہ تعالی کی رضا کیلئے مال خرچ کرتا ہو۔اِس لئے نہیں کہ کسی کا اس پر کوئی احسان ہو تو وہ اُس کا بدلہ چکانے کیلئے مال خرچ کرے۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن خاص طور پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف ہے جن میں یہ دونوں صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔وہ پرہیزگار بھی تھے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے بھی تھے۔خصوصا ان غلاموں کو آزاد کرانے میں مال خرچ کرتے تھے جو مسلمان ہو جاتے تھے تو ان کے مالک انھیں بری طرح پیٹتے اور دردناک ایذائیں دیتے تھے۔ان کی یہ کیفیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے برداشت نہ ہوتی تو آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیتے کہ انھیں خرید کر آزاد کردو۔چنانچہ وہ منہ مانگی قیمت دے کر انھیں خرید لیتے ، پھر انھیں آزاد کردیتے۔ تقریبا سترہ غلاموں کو کافروں کے عذاب سے نجات دلا کر انھیں آزاد کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وہ سات غلام آزاد کرائے جنھیں اللہ تعالی پر ایمان لانے کی پاداش میں عذاب دیا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور اسی طرح حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ |