Maktaba Wahhabi

260 - 492
کہا:(فَإِنَّ مِثْلَکَ یَا أَبَا بَکْر لَا یَخْرُجُ وَلاَ یُخْرَجُ ، إِنَّکَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ) ’’ ابو بکر ! آپ جیسے کو نہ توخود نکلنا چاہئے اور نہ ہی اسے نکالا جانا چاہئے۔آپ توتہی دست کو کما کر دیتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ، بوجھ برداشت کرتے ہیں ، مہمان نواز ہیں اور حق کے واقعات(تمام خصالِ خیر)میں مدد کرتے ہیں۔‘‘ پھر اس نے کہا:میں آپ کو پناہ دیتا ہوں ، آپ واپس لوٹ جائیں اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کریں۔چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے۔خود ابن الدغنہ بھی ان کے ساتھ آیا اور شام کے وقت اس نے اشرافِ قریش کے ہاں چکر لگایا اوران سے کہا:(إِنَّ أَبَا بَکْرٍ لَا یَخْرُجُ مِثْلُہُ وَلَا یُخْرَجُ ، أَتُخْرِجُوْنَ رَجُلاً یَکْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَیَصِلُ الرَّحِمَ ، وَیَحْمِلُ الْکَلَّ ، وَیَقْرِی الضَّیْفَ ، وَیُعِیْنُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ) ’’ ابو بکر جیسے کو تو نہ خود نکلنا چاہئے اور نہ ہی اسے نکالا جانا چاہئے۔قریش کی جماعت ! کیا تم اس شخص کو نکالتے ہو جوتہی دست کو کما کر دیتا ہے ، صلہ رحمی کرتا ہے ، بوجھ برداشت کرتا ہے ، مہمان نواز ہے اور حق کے واقعات(تمام خصالِ خیر)میں مدد کرتا ہے۔‘‘ چنانچہ ابن الدغنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو پناہ دی تھی قریش نے اسے تسلیم کرلیا اور وہ ان کی باتوں کو جھٹلا نہ سکے۔[1] اِس واقعہ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ قریش باوجود مخالفت اور دشمنی کے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اعلی اخلاق او ر ان کے فضائل ومناقب کا انکار نہ کر سکے۔بلکہ انھوں نے ایک کافر کی زبانی بیان ہونے والے ان کے اعلی اوصاف کو تسلیم کیا۔وہ کیوں ایسا نہ کرتے ؟ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ہی اعلی انسان کہ جن کی صفاتِ حمیدہ کا انکار ممکن ہی نہ تھا۔ محترم حضرات ! آپ ذرا غور کریں کہ ابن الدغنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جو اوصاف ذکر کئے بالکل یہی اوصاف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس وقت بیان کئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرا کر گھر پہنچے تھے۔یہ ایک اور دلیل ہے اِس بات کی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نہایت عظیم انسان تھے کہ ان میں بھی وہی صفات پائی جاتی تھیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں۔اسی لئے اللہ تعالی نے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے پہلے صدیقین کا تذکرہ فرمایا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾[2]
Flag Counter