Maktaba Wahhabi

256 - 492
۴۔ اِس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی ہدایت کیلئے کتنے فکرمند تھے۔انھوں نے خصوصی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے حق میں دعا کریں اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دیں ، شاید اللہ تعالی انھیں جہنم سے بچا لے۔ یہ تو ذکر تھا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والدین کا۔اور جہاں تک ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیویوں اور ان کی اولاد کا تعلق ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے جاہلیت میں بھی دو عورتوں سے شادی کی تھی اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دو خواتین سے شادی کی۔جاہلیت میں(قتیلہ بنت عبد العزی اور ام رومان رضی اللہ عنہا)سے جبکہ اسلام قبول کرنے کے بعد(اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور حبیبہ بنت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہا)سے شادی کی۔ قتیلہ بنت عبد العزی سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔جبکہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا پہلے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، انہی کے ساتھ انھوں نے ہجرتِ حبشہ بھی کی۔پھر جب وہ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تو ان سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی۔ان سے ان کے بیٹے محمد بن ابی بکر اُس وقت پیدا ہوئے جب اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ جار ہی تھیں تو ذو الحلیفہ کے مقام پر ان کی پیدائش ہوئی۔جب ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی تھی۔ حبیبہ بنت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہا کے بطن سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم آپ کی وفات کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔یوں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور زمانۂ جاہلیت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جاہلیت کے ایام میں بھی قریش کے درمیان اخلاق وکردار کے اعتبار سے ایک مثالی انسان سمجھے جاتے تھے۔آپ ان میں بڑے ہی دلعزیز اور نہایت با اخلاق تھے۔لوگ ان سے مشاورت کیلئے خصوصی طور پر ان کے ہاں جمع ہوتے او ر ضروری معاملات میں ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جاہلیت میں شراب نوشی اور اِس طرح کی دیگر برائیوں سے اجتناب کرتے تھے جو اُس وقت معاشرے میں بری طرح پھیلی ہوئی تھیں اور جن کے لوگ بہت ہی دلدادہ تھے۔ جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ جاہلیت میں بتوں کی پوجا بھی نہیں کرتے تھے۔وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے والد انھیں بتوں کے پاس لے کر گئے اور کہا:دیکھو ! یہ ہیں تمھارے معبود، تم انہی کی پوجا کیا کرو۔پھر وہ چلے گئے۔تو میں نے ایک بت کے قریب جا کر کہا:میں بھوکا ہوں ، مجھے کچھ کھلاؤ۔تو اُس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے کہا:
Flag Counter