ام جمیل نے کہا:یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں ! تو انھوں نے کہا:کوئی پروا نہیں۔ ام جمیل نے کہا:وہ ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:وہ کہاں ہیں ؟ ام جمیل نے کہا:دار ارقم میں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’ اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گا اور نہ کچھ پیوں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہ ہو جاؤں۔‘ وہ دونوں(ام الخیر اور ام جمیل)لوگوں کی آمد ورفت کے رک جانے کا انتظار کرنے لگیں۔جب ماحول پرسکون ہو گیا تو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سہارا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے لپٹ گئے اور ان کو بوسہ دیا۔پھر مسلمان بھی ان سے لپٹ گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حالت دیکھی تو آپ پر شدید رقت طاری ہوئی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پہ قربان ، اب میں ٹھیک ہوں۔بس اُس بد بخت نے میرے چہرے کی جو حالت کردی ہے اس سے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔اور یہ میری والدہ ہیں جو اپنے بیٹے کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہیں۔آپ با برکت ہیں ، لہذا آپ انھیں اللہ کی طرف دعوت دیں اور ان کیلئے دعا بھی کریں ، شاید اللہ تعالی آپ کے ذریعے انھیں جہنم سے بچا لے ! چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے دعا کی اور انھیں اللہ تعالی کی طرف دعوت دی۔وہ فورا مسلمان ہو گئیں۔[1] محترم حضرات ! اِس واقعہ میں کئی باتیں نہایت ہی سبق آموز ہیں: ۱۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار یہ مطالبہ کرنا کہ دعوت الی اللہ کا کام چھپ چھپا کر نہیں بلکہ ظاہری طور پر کیا جائے ، یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایمانی شجاعت کا ثبوت ہے۔ ۲۔ قبولِ اسلام کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کی خاطر بہت اذیتیں برداشت کیں۔آپ کو اِس سلسلے میں اتنا مارا گیا کہ لوگوں کو ان کی موت کا یقین ہو گیا۔ ۳۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کس قدر پیوست تھی کہ بے ہوشی کے بعد جیسے ہی ہوش میں آئے تو پہلا سوال ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا۔پھر کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کردیا جب تک کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جایا جائے۔ |