ہوئے آئے اور انھوں نے قریش کو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پیچھے دھکیل دیا۔بنو تیم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں اٹھا کر ان کے گھر لے آئے اور انھیں یقین تھا کہ یہ اب مر جائیں گے۔وہ مسجد میں واپس لوٹے اور اعلان کیا کہ اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم عتبہ بن ربیعہ کو ضرور قتل کریں گے۔ اِس کے بعد بنو تیم دوبارہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور وہ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد ’ابو قحافہ ‘ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بار بار بلانے لگے۔ابو بکر رضی اللہ عنہ بے ہوش تھے اور ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آ رہا تھا۔ آخر کار دن کے اختتام پر وہ بولنے کے قابل ہوگئے تو انھوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ‘ اِس پر بنو تیم ان کی ملامت کرنے لگے اور انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔تاہم جاتے جاتے وہ ان کی والدہ ام الخیر کو اتنا کہہ گئے کہ اِس کا خیال رکھنا اور کچھ کھانے پینے کیلئے ضرور دینا۔ جب والدہ کو ان کے ساتھ تنہائی میں بات کرنے کا موقعہ ملا تو انھوں نے اصرار کیا کہ کچھ نہ کچھ کھا پی لو۔لیکن ان کی ایک ہی بات تھی کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ‘ ام الخیر نے کہا:اللہ کی قسم ! مجھے تمھارے ساتھی کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:جائیں اور ام جمیل بنت خطاب سے پوچھ کے آئیں۔ وہ گئیں اور ام جمیل سے کہا:ابو بکر رضی اللہ عنہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ ام جمیل نے کہا:اللہ کی قسم ! مجھے نہ ابو بکر کا پتہ ہے اور نہ محمد بن عبد اللہ کا۔ہاں اگر تم چاہو تو میں تمھارے بیٹے کے پاس چلوں ؟(اصل میں اُس وقت ام جمیل رضی اللہ عنہا مسلمان ہو چکی تھیں لیکن وہ اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کررہی تھیں۔اور انھیں پتہ تھا کہ ام الخیر ابھی مسلمان نہیں ہوئیں ، اس لئے انھوں نے مکمل احتیاط کرتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا کہ کہیں ام الخیر کو یہ خبر نہ ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں۔اور ساتھ ہی ساتھ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حالت کے بارے میں اطمئنان حاصل کرنا چاہتی تھیں ، اس لئے انھوں نے پیش کش کی کہ اگر ام الخیر کو منظور ہو تو وہ ان کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلی جائیں) ام الخیر نے کہا:ٹھیک ہے تم میرے ساتھ چلو۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھی تو انھوں نے چیختے ہوئے اعلان کیا کہ ’ جنھوں نے ابو بکر کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے وہ یقینی طور پر برے اور کافر لوگ ہیں اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان سے ضرور انتقام لے گا۔‘ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پھر بھی وہی سوال کیا کہ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ‘ |